سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر کیس میں ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کہنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیںکہ درخواست پر دیئے گئے دلائل آپس میں ٹکرا رہے ہیں،ٹرانسفر ہونیوالے ججز کو ڈیپوٹیشن پر آئے ججز قرار نہیں دیا جا سکتا۔منگل کو سپریم کورٹ میں جسٹس محمد علی مظہر سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس پر سماعت کی ۔ وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کابینہ ججز تبادلہ کیلئے ایڈوائز کر سکتی ہے، مصطفی ایمپکس فیصلہ کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 48میں وزیر اعظم کا لفظ بھی ہے، کیا مصطفی ایمپکس فیصلے سے آرٹیکل 48میں لفظ وزیر اعظم غیر موثر ہوگیا۔عدالت نے کہا کہ درخواست گزار وکلاء نے سنیارٹی اور حلف کے معاملے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی ریپریزنٹیشن پر دلائل نہیں دیئے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں غیر قانونی پوائنٹ کی نشاندہی نہیں کی گئی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ججز اور درخواست گزاروں نے فیصلہ تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کیا ہے، ججز اور درخواست گزار کے وکلاء کو فیصلے میں غیر قانونی پہلو کی نشاندہی کرنا چاہئے تھی۔جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ ایڈووکیٹ حامد خان کے جواب الجواب دلائل مکمل ہوچکے،ایڈووکیٹ فیصل صدیقی جواب الجواب میں اس نقطہ پر دلائل دے لیں۔کراچی بار کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ ٹرانسفر پر جج کو نیا حلف لینا پڑے گا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج حلف لینے پر جونیئر جج ہو جائے گا۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ تبادلہ عارضی ہوتا ہے اس لئے حلف لینے سے پچھلی سروس پر فرق نہیں پڑے گا، جج جب واپس جائے گا تو اپنی سنیارٹی پر جائیگا، جج کا تبادلہ نئی تقرری نہیں ،جج کا تبادلہ مستقل نہیں ہو سکتا،
صدارتی آرڈر کے مطابق مستقل نہیں صرف عارضی ٹرانسفر ہو سکتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے تبادلے کے پراسیس پر کوئی بات نہیں کی۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ چیف جسٹس کے روبرو ججز ریپریزنٹیشن میں صرف سنیارٹی کی بات کر سکتے تھے، سنیارٹی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے فکس کی جس سے ججز متاثرہ ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر ججز کی ریپریزنٹیشن منظور ہو جاتی تو کیا آپ پٹیشن دائر کرتے؟ ،فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بالکل ہم تبادلہ کے خلاف پٹیشن دائر کرتے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ متاثرہ فریق تو ججز ہیں، عدالتی کارروائی کے آغاز میں کہہ دیا تھا مرکزی کیس متاثرہ ججز کا ہے، ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز نے تبادلہ پر آئے ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ قرار دیا، ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کہنے پر افسوس کیا جا سکتا ہے۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کے جواب الجواب دلائل مکمل ہونے پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو بھی سنیں گے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے تحریری جواب داخل کرایا ہے، یہ زیادہ مناسب ہوتا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اس وقت دلائل دے لیتے جب اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کئے تھے۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ میں نے دلائل نہیں دینے، میں نے صرف ریکارڈ جمع کروایا ہے۔منیر اے ملک نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے ریکارڈ پر میں جواب الجواب دلائل دوں گا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو تو آرڈر 27اے کا نوٹس ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ججز کی درخواست ،ریپریزنٹیشن اور دیگر درخواستوں پر دیئے گئے دلائل سب آپس میں ٹکرا رہے ہیں،
ریپریزنٹیشن اور اس میں دیئے گئے فیصلوں کے حوالے ڈیپوٹیشن سے متعلق ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سینئر اور عقلمند ہیں، ٹرانسفر ہونیوالے ججز کو ڈیپوٹیشن پر آئے ججز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہماری پٹیشن میں ایسا نہیں کہا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کو یاد ہوگا بینظیر بھٹو کے دور میں سپریم کورٹ کے ایک جج عبدالحفیظ میمن ہوا کرتے تھے، انہیں سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا جہاں وہ ریٹائرمنٹ تک رہے۔بعد ازاں کیس کی سماعت بدھ ساڑھے 9بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
