آسٹریلیا کی ایڈیلیڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی سرگرمیاں ساحلی جھیلوں کو زیادہ نمکین بنا رہی ہیں جس سے ان کا حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی افعال خطرے میں پڑ گئے ہیں۔
یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ ساحلی جھیلیں نہ صرف ماہی گیری کے لیے اہم ہیں بلکہ یہ طوفانوں سے ساحلی علاقوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور مچھلیوں، کیکڑوں اور ہجرت کرنے والے پرندوں کے لیے اہم مسکن کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی کارکردگی کا انحصار ایسے مائیکروبس (خرد حیاتیات) پر ہوتا ہے جو غذائی اجزاء کو گردش میں رکھتے ہیں اور حیاتیاتی تنوع کو قائم رکھتے ہیں۔
تحقیقی مرکزی مصنف کرس کینالی نے کے مطابق درجہ حرارت میں اضافہ، طویل خشک سالی، کم بارشیں اور سمندری سطح میں اضافہ جب کہ انسانی عوامل جیسے پانی کی منتقلی، شہری تعمیرات اور زیرزمین پانی کی کمی جھیلوں کو شدید نمکین بنا رہے ہیں۔
کینالی کے مطابق یہ تبدیلی الجی کی افزائش اور نمک برداشت کرنے والے مائیکروبس کے غلبے کا باعث بنتی ہے جو کاربن سائیکلنگ، غذائی اجزاء کے تحفظ اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج جیسے اہم عمل متاثر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا "محض ایک ہی خشک گرم موسم، جیسا کہ حال ہی میں ہم نے دیکھا، اس اہم ماحولیاتی نظام کو مکمل طور پر نمکین سبز سوپ میں بدل سکتا ہے.” جو حیاتیاتی تنوع کو کم کرتا ہے اور مچھلیوں کے مرنے، زہریلی الجی کے پھیلاؤ اور ساحلی حفاظتی نظام کے نقصان کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آسٹریلیا، بحیرہ روم اور خلیج فارس جیسے خشک اور نیم خشک علاقوں میں واقع جھیلیں خاص طور پر اس مسئلے کا شکار ہیں۔
تحقیق میں اس مسئلے کے عملی حل بھی پیش کیے گئے ہیں جیسے ماحولیاتی پانی کی روانی کی بحالی، گندے پانی کی صفائی کا بہتر انتظام، دلدلی علاقوں کی دوبارہ تعمیر اور نمک برداشت کرنے والے پودوں کی افزائش تاکہ بخارات کی رفتار کم کی جا سکے۔
تحقیق کے مطابق اچھی بات یہ ہے کہ ساحلی جھیلیں تیزی سے بحال ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی آسٹریلیا کی کورونگ جھیل نے 2022 میں دریائے مرےڈارلنگ میں سیلاب کے بعد چند مہینوں میں حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی کارکردگی دوبارہ حاصل کر لی ہے۔
ایڈیلیڈ، آسٹریلیا سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link