اتوار, جولائی 27, 2025
پاکستانلاہور ہائیکورٹ، بغیر شادی پیدا بچے کی کفالت کا ذمہ دار بائیولوجیکل...

لاہور ہائیکورٹ، بغیر شادی پیدا بچے کی کفالت کا ذمہ دار بائیولوجیکل والد کو قرار دے دیا

لاہور ہائیکورٹ نے زیادتی یا بغیر شادی کے پیدا ہونیوالے بچوںکی کفالت کا ذمہ دار بائیکلوجیکل والد قرار د ے کر 5سالہ بچی کے خرچ کے دعوے بارے کیس دوبارہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ بیک کر کے شواہد کی روشنی میں فیصلے کرنے کی ہدایت کردی۔ ۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس احمد ندیم ارشد نے محمد افضل کی درخواست پر 15صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچی کے پیدا ہونے کا ذمہ دار ہی اس کے اخراجات کا ذمہ دار ہے، اپنے ناجائز بچے کی ذمہ داری اٹھانا بائیولوجیکل والد کی اخلاقی ذمہ داری ہے ۔عدالت نے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق 2020میں درخواست گزار نے خاتون مریم سے مبینہ زیادتی کی جس کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا،

مبینہ زیادتی کے نتیجے میں خاتون نے بیٹی کو جنم دیا اور بچی کے خرچے کیلئے بائیولوجیکل والد کیخلاف دعوی دائر کیا۔فیصلے کے مطابق درخواست گزار نے ٹرائل کورٹ میں بیان دیا کہ بچی اس کی نہیں ، لہٰذا خرچے کا دعوی مسترد کیا جائے۔ ٹرائل کورٹ نے خاتون کا دعوی تسلیم کرتے ہوئے بچی کا 3ہزار خرچہ مقرر کردیا، درخواست گزار محمد افضل نے ٹرائل کورٹ فیصلے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔

عدالت نے کہا کہ یہ بچے کے خرچے کا کوئی معمولی کیس نہیں ،جائز بچے اور بائیولوجیکل بچے کی ٹرم میں بہت فرق ہے، ایک بائیولوجیکل بچہ شادی کے بغیر یا شادی کے ذریعے پیدا ہوسکتا ہے، جائز بچہ قانونی شادی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے ایک جائز بچے کے خرچے کیلئے دعوی دائر ہو تو مسلم قوانین کے مطابق ٹرائل کورٹ کو عبوری خرچہ لگانے کا اختیار ہوتا ہے اور جب ایک خاتون بائیولوجیکل بچے کے خرچے کیلئے دعوی دائر کرے اور والد تسلیم کرنے سے انکار کرے کہ بچہ اس کا نہیں ہے تو پھر کہانی مختلف ہوتی ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق بائیولوجیکل بچے کی ولدیت ثابت کرنا خاتون کی ذمہ داری ہے، اسلام میں بچے کی حیثیت جاننے کیلئے متعدد طریقہ کار موجود ہیں، بچے کے خرچے سے متعلق دعوے کا فیصلہ کرنے سے قبل ضروری ہے کہ بچے کی قانونی بائیولوجیکل حیثیت دیکھی جائے ۔فیصلے میں کہا گیا کہ اگر بچے کی ولدیت کا معاملہ ہی شکوک و شبہات کا شکار ہے تو عدالت کو خرچے کا فیصلہ کرنے سے قبل معاملہ طے کرنا چاہئے،

بچے کی قانونی حیثیت طے کئے بغیر خرچہ مقرر کرنا غیر شفافیت ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ میں دلائل کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے عدالتی دائرہ پر اعتراض اٹھایا۔ درخواست گزار کے مطابق خاتون کو بچے کی ولدیت ثابت کرنے کیلئے متعلقہ عدالت سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت تھی۔عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق وہ کسی ناجائز بچے کے پرورش کا ذمہ دار نہیں ہے۔

عدالتی فیصلے میں قرآنی آیات،احادیث اور شریعت کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، ویسٹ پاکستان فیملی ایکٹ 1964ء شادی اور دیگر فیملی معاملات سے نمٹنے کیلئے بنایا گیا۔فیصلے کے مطابق درخواست گزار کا فیملی عدالت کے دائرہ اختیار کا اعتراض درست نہیں ، سی آر پی سی کے سیکشن 488کے تحت فیملی نوعیت کے معاملات کیلئے مجسٹریٹ کو دائرہ اختیار حاصل ہے، فیملی قوانین میں کہیں بھی جائز یاناجائز بچے کا ذکر نہیں ہے، بنگلا دیش کے قانونی سسٹم میں ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو حقوق دیئے گئے ہیں۔

عدالت نے کہاہے کہ انصاف اور برابری کا تقاضا یہ ہے کہ اگر اگر خاتون ثابت کرے بچی کا بائیولوجیکل والد درخواست گزار ہے تو وہ اس کے اخراجات کا پابند ہے۔عدالت نے تمام فریقین کو ٹرائل کورٹ کے روبرو پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔

انٹرنیوز
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!