اتوار, جولائی 27, 2025
شِنہوا پاکستان سروسگلوبل لنک | تبت میں موجود آخری شاہانہ عمارت اشرافیہ کی ظالمانہ...

گلوبل لنک | تبت میں موجود آخری شاہانہ عمارت اشرافیہ کی ظالمانہ غلامی کی نشانی ہے

گلوبل لنک | تبت میں موجود آخری شاہانہ عمارت اشرافیہ کی ظالمانہ غلامی کی نشانی ہے

جھلکیاں:

چین کے تبت میں واقع پالہا کی شاہانہ عمارت اس خطے میں قدیم اشرافیہ کی اکلوتی جاگیر ہے، جسے اپنی اصل شکل میں باقی رکھا گیا ہے۔ اب یہ میوزیم سیاحوں کو اپنے مالکوں کے پُرتعیش طرز زندگی اور پرانے تبت میں اُن کے غلاموں کے المناک انجام کے بارے میں بتاتا ہے۔ #GLOBALink

ذیلی عنوانات اور ساؤنڈ بائیٹس:

جنوب مغربی چین کے تبت خود مختار علاقے میں شیگازی کے تحت گیانگزی کاؤنٹی میں پالہا کی عالیشان عمارت پرانے تبت میں اس طرح کے بارہ عمارات میں سے باقی رہ جانے والی یہ واحد عمارت ہے۔

اسے میوزیم کے طور پر اپنی اصل شکل میں رکھا گیا ہے جہاں آقاؤں کے پرتعیش طرز زندگی اور ماضی میں ان کے غلاموں کی المناک قسمت کو دیکھا جاسکتا ہے۔

ساؤنڈبایٹ 1 (تبتی): نوربو تسیرنگ، پالہا کی عمارت میں ایک سابق غلام کا بیٹا

"پُرانے تبت میں ظالمانہ زندگی کے بارے میں سوچ کر میرا دل دُ کھتا ہے، اور میری ناک کھٹی ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔”

یہ ایک ایسی  تین منزلہ عمارت ہے جس میں 57 کمرے ہیں اور مجموعی طور پر اس عمارت کا رقبہ 5 ہزار مربع میٹر سے زیادہ ہے۔

خزانے کا کمرہ کھال کے کپڑوں، عمدہ چینی پیالوں اور فیروزی عقیق اور دیگر قیمتی پتھروں سے بنے مہنگے زیورات سے بھرا پڑا ہے۔

لوئس وئیٹن کے ہینڈ بیگ، اومیگا کی گھڑی، مونٹ بلانک کے قلم، سکاچ وسکی، یہ تھیں 1950 کی دہائی میں پالہا خاندان کے روزمرہ کی استعمال کی اشیاء۔

اس محل کی تاریخ سے واقف لوگوں کے مطابق اس خاندان کے پاس اپنے عروج کے دنوں میں 37 ایسی عمارات، 1 ہزار ہیکٹر سے زیادہ زمین، 12 کھیت، 14 ہزار سے زیادہ مویشی اور 3 ہزار غلام تھے۔

ساؤنڈبایٹ 2 (تبتی): نوربو تسیرنگ، پالہا کی عمارت کے ایک سابق سپاہی کا بیٹا

"پالہا کی اس عمارت میں آقاؤں نے تمام جائیدادوں کا کنٹرول سنبھال رکھا تھا اور وہ لا پرواہ زندگی بسر کرتے تھے۔ بڑے پیمانے پر لوگ ان کے غلام تھے جو گرم کپڑے تک نہیں پہن سکتے تھے اور نہ ہی کھانے کے لئے ان کو مناسب ملتا تھا۔ وہ خوش قسمت ہوتے اگر انہیں کھانے کے لئے کچھ بھی مل جاتا، چاہے کچھ بھی ہو۔”

تاہم غلاموں نے ایک تکلیف دہ زندگی گزاری اُن کے پاس کوئی زمین نہیں تھی بلکہ صرف لامتناہی مزدوری کرتے تھے۔

آخر کار جب انہیں کچھ آرام ملتا بھی تو 60 غلاموں کو 150 مربع میٹر کے نچلے اور گیلے صحن میں جانا پڑتا، جہاں ہر ایک غلام اوسطاً 2.5 مربع میٹر کے ساتھ رہ سکتا تھا۔

1959 میں تبت کے لوگوں نے جمہوری اصلاحات کا آغاز کیا جس سے علاقے میں جاگیردارانہ غلامی کا خاتمہ ہوا اور 10 لاکھ غلاموں یا اس وقت اس کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی کو آزاد کرایا گیا۔

پالہا فیملی اس عمارت کو چھوڑ کر بیرون ملک بھاگ گئی جو بعد میں ایک محفوظ مقام بن گیا۔

ساؤنڈبایٹ 3 (تبتی): نوربو تسیرنگ، پالہا کی عمارت کے ایک سابق غلام کا بیٹا

"سچ کہوں تو ماضی کے اشرافیہ کے مقابلے میں میرے خیال میں آج کے کسان یہاں تک کہ غریب ترین لوگ بھی بہت بہتر ہیں۔”

گزشتہ 64 سالوں میں تبت اندھیرے سے روشنی کی طرف، غربت سے خوشحالی کی طرف اور آمریت سے جمہوریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

2022  میں تبت کی علاقائی جی ڈی پی 213 ارب 30 کروڑ یوآن (تقریباً 31 ارب 10 کروڑ امریکی ڈالر) تک پہنچ گئی، جو 1959 کے اعداد و شمار سے صرف 17 لاکھ 40 ہزار یوآن کے اعداد و شمار سے ایک بڑے اضافے کا اظہار ہے۔

تبت میں اوسط عمر 1959 سے پہلے تقریبا 35 سال تھی جو اب بڑھ کر 2021 میں 72 سال سے زیادہ ہو گئی ہے۔

ساؤنڈبایٹ 4 (تبتی): نوربو تسیرنگ، پالہا کی عمارت میں ایک سابقہ غلام کا بیٹا

"پارٹی اور ملک کی طرف سے ملنے والی توجہ کی وجہ سے  مجھے کھانے، کپڑے، رہائش سمیت کسی چیز کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں بہت خوش حال زندگی گزار رہا ہوں۔ بچے بھی میرے بہت قریب ہیں۔ اب میری خواہش ہے کہ میں زیادہ دیر تک زندہ رہوں اور اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوں۔”

 

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!