شام کے صوبہ لاذقیہ کے شمالی دیہی علاقے میں واقع بیت اوان گاؤں کی پہاڑیاں راکھ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
جہاں کبھی سرسبز زیتون کے باغات اور سبزیوں کے کھیت ہوا کرتے تھے وہاں کئی روز تک بھڑکنے والی جنگلاتی آگ کے بعد اب صرف جلی ہوئی زمین اور درختوں کی راکھ کے ڈھیر باقی رہ گئے ہیں۔
40سالہ کسان رفعت اسماعیل کی زمین بھی اس آگ سے تباہ ہو چکی ہے۔ انہوں نے شِنہوا کو بتایا کہ آتشزدگی کے باعث ان کا اور دیگر لوگوں کا تقریباً سب کچھ تباہ ہو گیا۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (عربی): رفعت اسماعیل، کسان
"آگ نے سب کچھ نگل لیا۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کھیرا، توری، ٹماٹر، شملہ مرچ، بھنڈی، زیتون اورلیموں کے درخت سب شعلوں کی نذر ہو گئے۔ ہمارے پاس اب کچھ بھی نہیں بچا۔”
بیت اوان میں لگنے والی آگ نے درجنوں ایکڑ پر محیط صدیوں پرانے زیتون کے درخت تباہ کر دئیے۔ یہاں کے زیادہ تر مکینوں کا روزگار کاشتکاری پر منحصر ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (عربی): رفعت اسماعیل، کسان
"نقصان کا حجم بہت زیادہ ہے اور اس کا کوئی ازالہ ممکن نہیں۔ زیتون کے ایسے درجنوں دونم ( ہزار مربع میٹر کے برابر زرعی پیمانہ) درخت مکمل طور پر جل گئے ہیں جو سو سال سے بھی زیادہ پرانے تھے۔ گاؤں کے لوگوں کے پاس اب کوئی ذریعہ آمدن نہیں بچا کیونکہ ان کا اصل روزگار مکمل طور پر زراعت پر ہی منحصر تھا۔”
رفعت کے کزن علی اسماعیل ایک کسان ہیں جو شہد کی مکھیاں بھی پالتے ہیں۔ جنگلاتی آگ کے دوران انہوں نے شہد کی مکھیوں کے کچھ چھتوں کو محفوظ کر لیا تھا۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (عربی): علی اسماعیل، کسان، شہد کی مکھیوں کا پالنے والا
"یقیناً ہم نے شہد کی مکھیوں کا دفاع کیا کیونکہ ہمارے پاس اب روزگار کا کوئی اور ذریعہ نہیں بچا۔ ان کی حفاظت کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ چاہے وہ لیموں کے درخت ہوں، زیتون ہوں یا کچھ اور اس وقت ہم سب کچھ کھو چکے ہیں۔ اب صرف یہ شہد کے چھتے ہی بچے ہیں جو ہمارا سہارا ہیں۔ اسی لئے ان کی حفاظت ہی ہمارا پہلا اور واحد انتخاب تھا چاہے اس کے لئےاپنی صحت یا جان کو خطرے میں ہی کیوں نہ ڈالنا پڑے ۔کیونکہ یہی واحد ذریعہ آمدن ہے جس پر ہم اب آگے چل کر انحصار کر سکتے ہیں۔”
جو کچھ باقی بچا تھا علی نے اسے محفوظ کرنے کی بھرپور جدوجہد کی۔ لیکن معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ جذباتی صدمہ اب مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 4 (عربی): علی اسماعیل، کسان، شہد کی مکھیوں کا پالنے والا
"کچھ لوگ نقصان کا تخمینہ 5 کروڑ سے 7 کروڑ امریکی ڈالر کے درمیان لگا رہے ہیں لیکن جو نقصان ہمیں ہوا وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ذرا ان جنگلات کو ہی دیکھ لیجئے ۔یہ وہ جنگلات تھے جن کے درخت سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال پرانے تھے۔ اب یہ سب راکھ ہو چکے ہیں۔ اصل نقصان بھی یہی ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کا نعم البدل پیسے سے ممکن نہیں۔”
دمشق، شام سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیکسٹ آن سکرین:
شام کے شمالی صوبے لاذقیہ میں جنگلاتی آگ نے سب کچھ جلا ڈالا
بیت اوان گاؤں کی پہاڑیاں مکمل طور پر راکھ ہو چکی ہیں
زیتون کے باغات، سبزیاں اور قدرتی جنگلات سب خاکستر ہو گئے
سو سال پرانے زیتون کے درخت بھی آگ کی نذر ہو گئے
مکینوں کے روزگار کا دارومدار مکمل طور پر زراعت پر تھا
نقصان کا اندازہ 5 سے 7 کروڑ ڈالر لگایا جا رہا ہے
صدیوں پرانے جنگلات کی تباہی ناقابلِ تلافی نقصان ہے

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link