غزہ شہر کے علاقے شیخ رضوان میں ایک عارضی خیمے کے گرد آلود فرش پر 10 سالہ سارہ البورش اپنے پیروں کی انگلیوں کے درمیان قلم تھام کر ایک پرانی نوٹ بک کے ایک استعمال شدہ صفحے پر بڑی احتیاط سے تتلی کا خاکہ بنا رہی ہے۔
چند ماہ پہلے وہ اپنے ہاتھوں سے تصویریں بنا رہی تھی اور مستقبل میں بچوں کی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ اکتوبر 2024 میں ایک اسرائیلی فضائی حملے نے اس کے یہ خواب، اس کے دونوں بازو اور اس کے والد کی زندگی چھین لی۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (عربی): سارہ البورش، فلسطینی بچی
"میں اور ابو ابھی وہاں سے گزر رہے تھے کہ اچانک گھر پر بم گر گیا۔ میں تقریباً 15 منٹ تک بے ہوش رہی۔ جب مجھے ہوش آیا تو میرے ہاتھ نہیں تھے۔ میں نے ابو کو آوازیں دینا شروع کر دیں لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر ایک نوجوان آیا، اس نے مجھے ایمبولینس تک پہنچایا جو مجھے بیپٹسٹ ہسپتال لے گئی۔ اب میں اپنے پیروں سے تصویریں بناتی ہوں، کھیلتی ہوں، بیٹھتی ہوں اور سوتی ہوں۔ چوٹ لگنے سے پہلے میں دوسرے بچوں کی طرح معمول کی زندگی گزار رہی تھی۔ میں بڑی ہو کر ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ وہ میرا خواب تھا۔ لیکن جب میرے ہاتھ کاٹ دئیے گئے تو میرا خواب بھی ٹوٹ گیا۔”
اب چاہے لکھنا ہو، تصویریں بنانا ہوں یا واٹس ایپ پر اساتذہ کو پیغام بھیجنا ہو، دونوں بازوؤں سے محروم سارہ نے ہر کام کے لئےاپنے پاؤں کو استعمال کرنا سیکھ لیا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (عربی): امانی البورش، سارہ کی والدہ
"ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس کے کھوئے ہوئے ہاتھوں کی جگہ اس کے پاؤں استعمال ہوں۔ میں نے بھرپور کوشش کی کہ وہ خود کو اس نئی حالت کے ساتھ ہم آہنگ کر سکے۔ میں نے اسے سکھایا کہ وہ اپنے پیروں کے ساتھ تصویریں بنائے، لکھے، پانی پیے، چمچ سے کھانا کھائے، قلم تھامے اور پڑھائی کرے۔ لیکن پاؤں کبھی بھی ہاتھوں کا مکمل متبادل نہیں ہو سکتے۔ میری بیٹی نے بہت محنت کی ہے۔ میری خواہش ہے کہ ایک دن وہ بیرون ملک جائے، اس کا آپریشن ہو، اسے مصنوعی ہاتھ لگیں اور وہ دنیا کے دوسرے بچوں کی طرح معمول کی زندگی گزارنا شروع کر دے۔ میں چاہتی ہوں کہ سارہ پھر سے وہی بن جائے جو وہ پہلے تھی اور اس کا خواب سچ ہو جائے۔”
امانی کے مطابق سارہ چوٹ لگنے کے بعد ایک عرصہ تک گہرے صدمے اور افسردگی میں مبتلا رہی ہے۔
اب سارہ روزانہ کچھ وقت عربی میں لکھنے، پرندے اور پھول بنانے اور اسکول کا کام مکمل کرنےمیں صرف کرتی ہے تاکہ اپنے پیروں کی مدد سے اپنی مہارتوں میں نکھار لا سکے۔اب اس نے ایک نیا خواب بھی دیکھنا شروع کر دیا ہے۔
"میں ایسی ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں جو میرے جیسے بچوں کو مصنوعی اعضا فراہم کرے۔”
سارہ کا حوصلہ جتنا بلند ہے اس کا ماحول اتنا ہی کٹھن۔خیمے تنگ ہیں اور جھلسا دینے والی گرمی ہے۔ تباہ حال نظامِ صحت سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ مصنوعی اعضا کی سہولت فراہم کرے گا۔
سارہ ان سینکڑوں بچوں میں شامل ہے جنہوں نے اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی اسرائیل کی فوجی مہم جوئی کے دوران اپنے جسمانی اعضا کھو دئیے۔
غزہ میں قائم صحت کے حکام کے مطابق اس جنگ میں اب تک ایک لاکھ 36 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جو زندگی بھر کی معذوری کا شکار ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی 18 جون کو جاری کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں ایسے افراد کی تعداد 6 ہزار تک پہنچ چکی ہے جنہیں مصنوعی اعضا کی ضرورت ہے۔ ان میں 4 ہزار حال ہی میں معذوری کا شکار ہوئے جبکہ 2 ہزار پہلے سے معذور افراد شمار ہوتےہیں۔
غزہ کے ہسپتال جو برسوں سے جاری ناکہ بندی کے باعث پہلے ہی بحران کا شکار ہیں اب خصوصی مصنوعی اعضا اور طویل مدتی بحالی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
غزہ، فلسطین سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیکسٹ آن سکرین:
غزہ کی 10 سالہ سارہ مستقبل میں بچوں کی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی
اکتوبر 2024 میں ایک اسرائیلی حملے نےاس سے یہ خواب چھین لیا
ایک بم سارہ کے گھر پر آ گرا جس نے اس کے دونوں بازو اڑا دئیے
فلسطینی لڑکی نے ہمت دکھائی اور پیروں سے کام کرنا سیکھنے لگی
ماں نے بھی سارہ کو احساس کمتری کا شکار نہیں ہونے دیا
اب سارہ غزہ میں اپنےخیمے کے فرش پر بیٹھی ڈرائنگ کر رہی ہے
وہ کاپی پر لکھ سکتی ہےاور واٹس ایپ پر ٹیچر کو میسیج بھی کرتی ہے
سارہ اب بچوں کو مصنوعی اعضا فراہم کرنے والی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے
غزہ میں اس وقت مصنوعی اعضا اور بحالی کی کوئی سہولت موجود نہیں
اقوام متحدہ کےمطابق غزہ میں 6 ہزار افراد کو مصنوعی اعضا چاہئیں

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link