شوگر ملز مالکان حکومت سے چینی کی برآمد کے نام پر سبسڈی بھی لیتے رہے مگر مقامی سطح پر قیمتیں پھر بھی آؤٹ آف کنٹرول رہیں۔ شوگر ملز مالکان پیداواری لاگت میں ہیر پھیر کرکے بھی اربوں روپے بٹورتے رہے۔ ماضی میں برآمد کی گئی 7لاکھ میٹرک ٹن سے زائد چینی کا ریکارڈ غائب ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ماضی کی طرح تگڑے مافیا نے اضافی اسٹاک کے نام پر چینی برآمد کرنے کی اجازت لی،چینی برآمد کرکے مقامی سطح پر قیمتیں بڑھا دیں،7 ماہ میں 60 روپے فی کلو اضافہ ہو چکا ہے ، مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں بڑھا کر اربوں روپے کی دیہاڑیاں لگائی جارہی ہیں۔
دستاویزکے مطابق 2020 تک حکومت سے چینی برآمد کرنے کیلئے 4ارب 12کروڑ کی سبسڈی بھی لی، 26شوگرملز نے 4لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کیلئے حکومت سے سبسڈی لی، 2015 سے 2020 تک چینی برآمد کرنے کے نام پر بھی بڑے فراڈ کا انکشاف ہواہے ۔
شوگر مافیا نے افغانستان کو 23 لاکھ 55 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے ، افغان حکومت کے ڈیٹا کے مطابق 15لاکھ میٹرک ٹن چینی افغانستان آئی، افغانستان بھیجی گئی 7لاکھ 78ہزار میٹرک ٹن چینی کا ریکارڈ ہی دستیاب نہیں ہے ، ماضی میں گٹھ جوڑ سے قمیتیں بڑھانے پر 38 شوگر ملز کیخلاف مقدمات بھی ہوچکے ہیں۔
ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے شوگر ملز مالکان کیخلاف ایف أئی آر درج کرائیں ، ایف آئی اے کو شبہ تھا کہ قیمتیں بڑھا کر عوام سے 110 ارب روپے بٹورے گئے، 2018 سے 2020 تک پیداواری لاگت کے غلط اعداد و شمار بتائے گئے، اعداد و شمار میں ہیر پھر کرکے ملز مالکان نے 53ارب کا اضافی منافع کمایا، شوگرملز مالکان نے 18ارب روپے کا کارپوریٹ ٹیکس بھی بچایا۔
دستاویزات کے مطابق رواں سال جنوری سے اب تک چینی کی قیمت میں 60روپے فی کلو اضافہ ہوچکا ہے ، حکومت کی جانب سے مارچ میں چینی کی قیمت 140 روپے مقرر کی گئی تھی، ساڑھے 7 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کے بعدقیمتیں 170تک جاپہنچیں، حکومت نے ایکس مل پرائس 20 روپے بڑھا کر 160 روپے مقرر کی ، قیمتیں پھر بھی آؤٹ آف کنٹرول ہوئیں اور مارکیٹ میں چینی 200روپے فی کلوہوگئی۔
حکومت نے قیمتوں میں استحکام لانے کیلئے 5لاکھ ٹن باہر سے منگوانے کا فیصلہ کیاہے ، 2021 سے آئی ایم ایف نے چینی برآمدت پر سبسڈی ختم کرنے کی شرط لگارکھی ہے، آئی ایم ایف چینی کی طلب اور رسد کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ بھی کرچکا۔
