نیروبی(شِنہوا)کینیا کی ایک عدالت نے طبی ڈیٹا لیک ہونے کے خدشات کے پیش نظر امریکہ کے ساتھ دستخط شدہ 1.6 ارب ڈالر مالیت کے صحت کے معاہدے کا نفاذ معطل کر دیا ہے۔
توقع کی جا رہی تھی کہ صحت کے شعبے میں تعاون کا پانچ سالہ فریم ورک، جس پر 4 دسمبر کو دستخط ہوئے تھے، کینیا کی حکومت کی یونیورسل ہیلتھ کوریج کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔ تاہم ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ اس انتظام سے طبی ڈیٹا کے لیک ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، کیونکہ کینیا کا طبی اور وبائی ڈیٹا بیرون ملک منتقل ہو سکتا ہے۔
کینیا کی ہائی کورٹ کے جج بہاتی مواموئے نے ایک حفاظتی حکم جاری کیا، جس کے تحت حکومت اور اس کے اداروں کو "طبی، وبائی یا ذاتی صحت کے حساس ڈیٹا کی منتقلی، تبادلے یا ترسیل” سے روکا گیا ہے۔
مواموئے نے حکم میں کہا کہ ایک حفاظتی حکم جاری کیا جاتا ہے جس کے تحت جواب دہندگان خواہ وہ خود یا ان کے ایجنٹس اور نمائندے ہوں، کو 4 دسمبر 2025 کے آس پاس کینیا اور امریکہ کی حکومتوں کے درمیان طے پانے والے صحت تعاون فریم ورک کے نفاذ، اس پر عملدرآمد یا اس کے کسی حصے کو موثر بنانے سے روکا جاتا ہے، خاص طور پر وہ حصہ جس میں طبی، وبائی یا ذاتی صحت کے حساس ڈیٹا کی منتقلی، تبادلے یا ترسیل کی اجازت یا گنجائش موجود ہے۔
یہ حکم اس وقت سامنے آیا جب کنزیومر فیڈریشن آف کینیا (سی او ایف ای کے) نے اس معاہدے کو عوامی مشاورت کے بغیر طے پانے اور طبی ڈیٹا کے لیک ہونے کے خدشے کے باعث عدالت میں چیلنج کیا۔
اپنی درخواست میں سی او ایف ای کے نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت ایک بار یہ ڈیٹا شیئر ہو گیا تو کینیا کی عدالتوں یا ملکی ریگولیٹرز کے پاس اس کے غیر ملکی استعمال کو واپس لینے، محدود کرنے یا اس کی نگرانی کرنے کا کوئی اختیار نہیں رہے گا۔



