وسطی غزہ کے شہر دیرالبلاح میں شہداء الاقصیٰ ہسپتال میں فسلطینی ڈاکٹرخالدالسیدانی مریضوں کامعائنہ کررہے ہیں-(شِنہوا)
غزہ(شِنہوا)ڈاکٹر خالد السیدانی الاقصیٰ ہسپتال کے شعبہ اطفال کے وارڈ میں اپنی مرضی سے بستروں کے درمیان گھومتے ہیں، ان کی مصنوعی ٹانگ اس بات کاثبوت ہے کہ اس جنگ نے غزہ کے طبی نظام کو تباہ کر دیا ہے۔
51 سالہ السیدانی کا کہنا تھا کہ یہ میرا مشن ہے، وارڈ میں جانے کی جدوجہد کے باوجود ان کی آواز مستحکم ہے۔ یہاں تک کہ اگر میں ایک معذور شخص بن بھی گیا، تب بھی میرے پاس وہ طبی تجربہ ہے جس کی میری پوری برادری کو ضرورت ہے۔
6 ماہ قبل ہونے والے فضائی حملے میں البریج پناہ گزین کیمپ میں ان کا گھر بھی تباہ ہوگیا تھا اور ان کے خاندان کے کئی افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ غزہ کے ہزاروں دیگر لوگوں کی طرح وہ بھی ایک ایسی جنگ کا شکار ہوئے جس نے ان گنت زندگیوں کو برباد کر دیا ہے۔
ڈآکٹرخالدنےکہاکہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے میں اور میری فیملی بے گھر ہوگئے لیکن جس چیز نے معاملے کو مزید خراب کر دیا وہ یہ تھا کہ میں ایک معذور شخص بن گیا جو اپنی مدد بھی نہیں کرسکتا تھا۔
اس کے نتیجے میں وہ کئی مہینوں تک ڈپریشن کا شکار رہے۔
لیکن غزہ کے بڑھتے ہوئے طبی بحران، ہسپتالوں میں دباؤ اور طبی عملے کی کمی نے آخر کار انہیں کام پر واپس آنے پر مجبور کردیا ۔ پہلے تو وہ وہیل چیئر استعمال کرتے تھے۔ اب وہ مقامی طور پر بنائی گئی مصنوعی ٹانگ استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی عضو بہترین حالت میں نہیں ہے لیکن کم از کم یہ مجھے اپنا کام جاری رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔
ڈاکٹر السیدانی کو ایک اور سنگین طبی چیلنج کا سامنا ہے۔ تشخیص سے پتہ چلا ہے کہ ان کی باقی ٹانگ کی شریانیں بند ہیں جس کی وجہ سے تکلیف کی صورت میں مزید ٹانگ کاٹنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنے فرائض سے دستبردار نہیں ہورہے۔
انہوں نے غزہ کے طبی کارکنوں کے ذاتی صدمے اور پیشہ ورانہ چیلنجز کے باوجود اپنا کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میں ہسپتال نہیں چھوڑ سکتاکیونکہ میں ایک ماہر امراض اطفال ہوں اور جنگ کے دوران بچوں کو خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹرالسیدانی کے لئے کام پر واپس آنا محض ایک پیشہ ورانہ ذمہ داری کو پورا کرنے سے بڑھ کر ہے اور انہوں نے اپنے مقصد کا احساس بحال رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال واپس آنے سے میری زندگی سے جڑے رہنے کی خواہش بحال ہوگئی اور حالات کچھ بھی ہوں اپنا کام جاری رکھیں۔
