اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ شہری کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی جس میں جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ ریاست جن کو دہشت گرد کہتی رہی اب ان کو ادائیگیاں کریں گے۔
عدالت نے لاپتہ شہری عمر عبداللہ کے والد سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو امدادی رقم ادا کر دی گئی ہے؟ جس پر لاپتہ شہری کے والد نے بتایا کہ ہمیں تاحال امداری رقم کی ادائیگی نہیں ہوئی۔
سیکرٹری گمشدہ افراد انکوائری کمیشن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جبری گمشدہ افراد کی فیملیز کو ادائیگی کے لیے سپیشل کمیٹی بنائی گئی ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ کمیٹی کس لیے بنائی گئی ہے؟ سیکرٹری کمیشن نے بتایا کہ کابینہ نے کمیٹی بنائی تھی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد انکوائری کمیشن کی کوئی حیثیت نہیں، وہ کیوں بٹھایا ہوا ہے؟ اِس عدالت میں امداری رقم ادائیگی کا بیان دیے دو ماہ گزر چکے ہیں۔
عدالت کو نمائندہ وزارت دفاع نے آگاہ کیا کہ ہم نے معاملہ فائنل کر کے وزارتِ داخلہ کو بھیج دیا تھا، ادائیگی انہوں نے کرنی ہے، اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفار کیا کہ کیا یہ پہلی فیملی ہو گی جس کو ادائیگی کی جائے گی؟ ایک کے ساتھ یہ حال ہو رہا ہے تو باقیوں کے ساتھ کیا ہو گا؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید استفسار کیا کہ حکومت پاکستان کے پاس اتنے لاپتہ افراد کو ادائیگی کیلئے بجٹ ہے؟ کیا آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر ادائیگیاں کی جائیں گی؟ آدھا پاکستان آج سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کتنی عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کو پراسیکیوٹ کرنا تھا اُن کو بچانے کیلئے ہم لوگوں کو پیسے دیں گے، جن مسنگ پرسنز کو پہلے دہشت گرد کہتے رہے اب ان کو پیسے دے رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست جن کو دہشت گرد کہتی رہی اب ان کو ادائیگیاں کریں گے، عجیب بات ہے پہلے مسنگ پرسنز کو دہشت گرد کہو پھر ان کو پیسے دو، مسنگ پرسنز پیش نہ کرنے پڑیں بس کروڑوں روپے دے دو۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جنہیں دہشت گرد کہتے تھے اُنہیں گرفتار کرتے، ٹرائل کرواتے، سزائے موت کروا دیتے۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 26 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
