اسلام آباد: سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن نے ایکسٹینشن کو فوج سمیت ہر ادارے کیلئے غلط قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ حق ہے تو پھر پارلیمنٹ کو بھی دیا جائے، اپوزیشن کے ساتھ مل کر عدالتی نظام میں اصلاحات لائی جائیں،اعتماد بحال،پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی (ف) مولانافضل الرحمن نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ پیش آئے واقعے کی مذمت کرتا ہوں، ساتھیوں کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر سپیکر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں مگر حق تو یہ تھا اس واقعے کے بعد ایوان کو تین دن کیلئے بند کردیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ آج خیبرپختونخوا میں پولیس نے دھرنا دیا ہوا ہے، لکی مروت، بنوں، ڈی آئی خان میں پولیس احتجاج پر ہے، اگر پولیس نے فرائض ادا کرنا چھوڑدیئے تو ملک کا کیا ہوگا؟۔انہوں نے کہا کہ ادارے اور اداروں کے بڑے اپنی ایکسٹینشن کیلئے فکر مند ہیں ملک کیلئے نہیں،ایکسٹینشن کا عمل فوج سمیت ہرادارے میں غلط ہے اگر یہ حق ہے تو پارلیمنٹ کو بھی ایکسٹینشن کا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ روایات ٹھیک نہیں،ہم اپوزیشن ہیں،غلط روایت کی بنیاد نہیں ڈالیں گے، پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہم کسی کی ایکسٹینشن کی تائید کیوں کریں گے؟۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہئے ہمارا عدالتی نظام فرسودہ ہوچکا ہے، جتھوں کو ختم،پارلیمنٹ کو مضبوط بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتیں سیاسی گروہ بن چکی ہیں، کچھ عدالتیں کسی کو سپورٹ کرتی ہیں، کچھ کسی کو، حکومت کو کہوں گا اپوزیشن کے ساتھ مل کر عدالتی نظام میں اصلاحات لائی جائیں۔انہوں نے کہا کہ فوج اور عدلیہ میں ایک جیسا معیار لایا جائے، ہمیں یاد ہے کس طرح ہاتھ مروڑ کر ایک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 60 ہزار سے زائد مقدمات زیرالتواء پڑے ہیں،کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ آئینی معاملات کیلئے الگ عدالتیں بنائی جائیں؟،آج ملک میں انگریز دور کا عدالتی نظام چل رہا ہے، اعتماد کو بحال کرنا پڑے گا اور پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آج کوئی بات کریں تو توہین عدالت ہوجائے گی، بلوچستان پر بات کریں تو ایجنسیاں آجاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ 19ویں آئینی ترمیم کیلئے ایک جج نے پارلیمان کو بلیک میل،کیا 19ویں آئینی ترمیم کو ختم ہونا چاہئے؟۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کیلئے پارلیمان اور جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہونا چاہئے۔
