اسلام آ باد: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ شوگر سیکٹر کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے گا، شوگر سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے بعد کمپٹیشن کمیشن کا کردار بڑھ جائے گا، تحقیقات میں معاونت کے لیے دیگر اداروں سے ڈیٹا کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک اجلاس کی صدارت کے دوران کیا ۔وزیر خزانہ کی زیر صدارت اجلاس کے دوران مسابقتی کمیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ ماضی کے تمام چینی بحرانوں میں بھی چینی کی ایکسپورٹ کرنے کے لیے سپلائی محدود کی گئی تھی، شوگر سیکٹر کارٹل کیخلاف 2010 ، 2021 میں احکامات جاری کیے گئے تھے۔2009-10 کی شوگر انکوائری میں کارٹلائزیشن کے واضح ثبوت سامنے آئے تھے، 2010 کا شوگر کارٹل کا فیصلہ آج تک منظر عام پر نہیں لایا جا سکا، سندھ ہائی کورٹ نے 2021 تک اسٹے دیے رکھا، اور اب معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
کمپٹیشن ٹربیونل نے 2021 کا فیصلہ دوبارہ سماعت کے لیے کمیشن کو بھجوا دیا ہے۔ چئیرمین سی سی پی ڈاکٹرکبیر سدھو نے چینی بحران کی وجوہات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ چینی کی ایکسپورٹ سے ملک میں چینی کے ذخائر ضرورت سے کم ہوگئے تھے۔
شوگر ایڈوائزی بورڈ نے گزشتہ سال جون سے اکتوبرکے دوران گنے کی پیداوار، دستیاب اسٹاک اور چینی کی پیداوار سے متعلق حکومت کو درست تخمینہ نہیں بتایا تھا، غلط تخمینوں کی بنیاد پر حکومت نے ایکسپورٹ کی اجازت دے دی تھی۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ فیصلہ سازی شوگر ملز ایسوسی ایشن کے فراہم کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے، فیصلہ سازی کے لیے آزادانہ اور شفاف ڈیٹا حاصل کیا جائے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ کمپٹیشن کمیشن شوگر سیکٹر ریفارم کمیٹی کی معاونت کے لیے تجاویز تیار کر رہا ہے، اجلاس میں وزیر خزانہ کو 09-2008 ، 16-2015 ، 20-2019 کے چینی بحران کی وجوہات پر بھی بریفنگ دی۔
