پاور ڈویژن نے صوبوں کی مخالفت کے باوجود ایک بار پھر وفاقی کابینہ کو بجلی کے بلوں پر صوبائی محصولات ختم کرنے اور سولر نیٹ میٹرنگ پر صارفین کا منافع محدود کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ وہ ایک سے ڈیڑھ سال میں سرمایہ واپسی کے موجودہ نظام کو بڑھا کر 2 سے 3 سال پر مشتمل کرنے کی تجویز پر مبنی نظرثانی شدہ منصوبہ ایک یا دو ہفتوں میں وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ کابینہ سے منظوری کے لیے وِیلنگ چارجز سے متعلق قواعد بھی پیش کر دیے گئے ہیں، جو مسابقتی بجلی کی تجارت کے نظام کے نفاذ کی طرف اہم قدم ہے۔
وزیر توانائی نے بتایا کہ حکومت 5 ہزار سے 6 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی انتہائی کم نرخوں پر ڈیٹا سینٹرز اور کرپٹو مائننگ جیسی صنعتوں کو دینے پر غور کر رہی ہے اور اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ کے طریقہ کار میں تبدیلی سے فی یونٹ بجلی سستی نہیں ہوگی، مگر یہ بھی یقینی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں ہوگا، اگر اس نظام کو محدود نہ کیا گیا تو نیٹ میٹرنگ سے جُڑے صارفین بھی آئندہ اربوں روپے کے بل برداشت کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے آزاد پاور پروڈیوسرز سے مذاکرات کے ذریعے 3 کھرب روپے سے زائد بچائے، 17 ہزار میگاواٹ کی مجوزہ پیداواری صلاحیت میں سے 10 ہزار میگاواٹ کے منصوبے منسوخ کیے اور مستقبل کی ادائیگیوں میں 4 کھرب روپے کی بچت کی۔
اویس لغاری نے بتایا کہ انہوں نے چاروں وزرائے اعلیٰ کو خطوط لکھے ہیں کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکوز) صوبوں کے لیے بجلی ٹیکس جمع کرنے کا کردار اب ادا نہیں کریں گی، صرف ایک وزیراعلیٰ نے جواب دیا ہے، باقی کے جوابات آنے کے بعد معاملہ کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔
بلوں کی وصولی اور نقصانات میں بہتری
وفاقی وزیر نے بتایا کہ توانائی ڈویژن نے انتظامی اصلاحات کے ذریعے بلوں کی وصولی اور ترسیلی نقصانات میں نمایاں بہتری حاصل کی ہے۔
مالی سال 2024 میں ڈسکوز کو کم بلنگ اور تکنیکی خرابیوں کے باعث 591 ارب روپے کا نقصان ہوا، مگر مالی سال 2025 میں یہ نقصان کم ہو کر 399 ارب روپے تک آ گیا، یعنی 191 ارب کی بچت ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ڈسکوز کو آئندہ 5 برسوں میں ہر سال 100 ارب روپے نقصان کم کرنے کا ہدف دیا گیا ہے، مگر ابھی سے 191 ارب کی بچت حاصل کر لی گئی ہے۔
بلوں کی وصولی کی شرح 2024 میں 92.4 فیصد تھی، جو بڑھ کر 2025 میں 96.6 فیصد ہو گئی، پنجاب اور اسلام آباد کی 5 ڈسکوز نے تو 101 فیصد سے زائد وصولی کی۔
ترسیلی اور تقسیم کے نقصانات (جو زیادہ تر چوری کی وجہ سے ہوتے ہیں) 2024 میں 18.3 فیصد تھے، جو 2025 میں کم ہو کر 17.6 فیصد رہ گئے، ان نقصانات کا مالی حجم بھی 276 ارب سے کم ہو کر 266 ارب روپے ہو گیا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) نے 4 بھٹیوں اور اسٹیل فیکٹریوں میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری پکڑی ہے، جنہوں نے میٹرز میں ٹیمپرنگ کر رکھی تھی۔
فیکٹری مالکان نے اثر و رسوخ استعمال کر کے سیکیورٹی حکام اور ڈسکو عملے کو ہٹوانے کی کوشش کی، مگر وزیراعظم شہباز شریف اور متعلقہ اداروں نے چوری کے خلاف مہم کی حمایت کی۔
اویس لغاری نے کہا کہ ڈسکوز کی توجہ وصولیوں، چوری کے نیٹ ورک توڑنے اور مجموعی نظم و نسق کی بہتری پر مرکوز رہے گی۔
کےالیکٹرک اور یکساں نرخ
ایک سوال پر وزیر توانائی نے کہا کہ چونکہ اب کے الیکٹرک کی زیادہ تر بجلی قومی گرڈ سے آرہی ہے، اس لیے فیول لاگت اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ پر بھی یکساں نرخ نافذ ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ کے الیکٹرک کی درآمدی بجلی ایک ہزار میگاواٹ سے بڑھ کر 1600 میگاواٹ ہو گئی ہے اور آئندہ ماہ یہ مزید 400 میگاواٹ تک بڑھ جائے گی۔
یہ معاملہ جلد پاور ریگولیٹر کے سامنے پیش کر کے وفاقی کابینہ کو متفقہ حل تجویز کیا جائے گا۔
ایل این جی معاہدوں پر نظرثانی کی ضرورت
اویس لغاری نے تسلیم کیا کہ ایل این جی درآمدی معاہدے تقریباً ایک دہائی پہلے اس مفروضے پر کیے گئے تھے کہ ایل این جی پر مبنی پلانٹس سو فیصد یہی ایندھن استعمال کریں گے، مگر اب ایسا ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب ایندھن کے معاشی اصول (میرٹ آرڈر) کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے، لہٰذا ایل این جی معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لیا جانا ضروری ہے، جیسے آزاد بجلی گھروں کے معاہدوں پر نظرثانی کی گئی۔
