امریکہ کے واشنگٹن ڈی میں وائٹ ہاؤس کا ایک منظر۔(شِنہوا)
نیویارک (شِنہوا)امریکی قومی ادارہ برائے صحت (این آئی ایچ)کے 60 سے زائد ملازمین نے سخت الفاظ پر مبنی ایک خط پر دستخط کئے ہیں جس میں انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں ملک کے طبی تحقیقاتی نظام کی تنزلی کی مذمت کی۔
ملازمین نے حکومت پر غیر قانونی طور پر فنڈز روکنے، تحقیقی مطالعوں میں شرکاء کی جان کو خطرے میں ڈالنے اور اہم تحقیقی کام پر سنسرشپ لگانے کا الزام لگایا۔
نیو یارک ٹائمز نے اس بارے میں رپورٹ کیا ہے کہ یہ خط این آئی ایچ کے ڈائریکٹر جے بھاٹاچاریا کو بھیجا گیا اور بعد میں آن لائن پوسٹ کیا گیا۔ یہ ادارے کی قیادت پر ایک غیر معمولی تنقید تھی۔ خط پر دستخط کرنے والے ملازمین نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس بارے میں بولنے کی وجہ سے انہیں نوکری سے نکالا جا سکتا ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان احکامات کو مان لینا جو وہ غیر اخلاقی یا بعض صورتوں میں غیر قانونی سمجھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
انہوں نے 4 صفحات پر مشتمل خط میں لکھاہے کہ ہم ان انتظامی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں جو این آئی ایچ کے مشن کو نقصان اور عوامی وسائل کو ضائع کررہی ہیں اور امریکیوں سمیت دنیا بھر کے لوگوں کی صحت کو متاثر کررہی ہیں۔ کئی افراد نے یہ خدشات این آئی ایچ کی قیادت تک پہنچائے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم پر نقصان دہ اقدامات نافذ کرنے کا دباؤ برقرار ہے۔
اس خط پر این آئی ایچ کے 27 اداروں اور مراکز کے ملازمین کے دستخط ہیں۔ منتظمین نے اس کا نام دی بیتھسڈا ڈیکلریشن رکھا جو ادارے کے ہیڈکوارٹر کے مقام بیتھسڈا اور 2020 میں جے بھاٹاچاریا کے دستخط کردہ گریٹ بیرنگٹن ڈیکلریشن کا حوالہ ہے جس میں کووڈ-19لاک ڈاؤنز کی مخالفت کی گئی تھی۔
خط میں یہ بھی کہا گیا کہ تحقیقی آزمائشوں کو درمیان میں روک دینا ان شرکاء کی جان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے جنہوں نے رضاکارانہ طور پر ادویات لینے یا طبی آلات لگوانے پر رضامندی ظاہر کی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی سائنسدانوں کو بیرون ملک ساتھیوں سے جدا کر دیا ہے اور آزادانہ طور پر جانچے گئے منصوبوں سے فنڈز ہٹا کر ایسے منصوبوں کو منتقل کئے ہیں جنہیں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link