اتوار, جولائی 27, 2025
تازہ ترینچین-امریکہ "تجارتی عدم توازن" ایک افسانہ کیوں

چین-امریکہ "تجارتی عدم توازن” ایک افسانہ کیوں

امریکی ریاست کیلیفورنیا کی لاس اینجلس کاؤنٹی کے والمارٹ سٹور میں کیلے فروخت کےلئے رکھے گئے ہیں-(شِنہوا)

بیجنگ(شِنہوا)حال ہی میں واشنگٹن نے ایک بار پھر چین کے ساتھ نام نہاد "تجارتی عدم توازن” کو اپنے محصولات اور دیگر اقتصادی اقدامات کے لئے مرکزی جواز کے طور پر پیش کیا۔

تاہم واشنگٹن کی سکیورٹی کے تصور کو حد سے زیادہ پھیلانے اور اقتصادی و تجارتی معاملات کو سیاسی رنگ دینے کے رجحان  کا یہ بیانیہ اکثر چین-امریکہ تجارتی کشیدگی کے بنیادی مسئلے کو نظر انداز کر دیتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بڑھتا ہوا امریکی تجارتی خسارہ اس کی اپنی پالیسی کے انتخاب کا نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر اشیاء کی تجارت کے لحاظ سے امریکی حکومت طویل عرصے سے اعلیٰ تکنیکی کمپنیوں اور مصنوعات پر سخت برآمدی کنٹرول نافذ کر رہی ہے جو تجارتی خلا کو کم کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ بنتی ہے۔

اقتصادی اور تجارتی معاملات کو مسلسل سیاسی رنگ دینے اور سکیورٹی خدشات کو حد سے بڑھانے کے ذریعے واشنگٹن نے متعدد پابندیوں پر مبنی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف دائرہ کار میں وسیع ہوئے ہیں بلکہ ان پر عملدرآمد میں بھی شدت آئی ہے، جس سے وہی تجارتی خسارہ مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے جس کی وہ شکایت کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ امریکہ کے مسلسل تجارتی خسارے بیرونی عوامل کے بجائے داخلی ساختی مسائل کی وجہ سے ہیں، جیسا کہ اس کی پیداوار میں طویل مدتی کمی اور اس کے خدمات کے شعبے کی مسلسل توسیع، جس نے صارفین کی طلب کو پورا کرنے کے لئے درآمدات پر زیادہ انحصار پیدا کیا۔

تاہم امریکہ خدمات کی برآمدات میں ایک نمایاں برتری رکھتا ہے، وہ شعبے جہاں چین مسلسل خسارے میں رہتا ہے۔ درحقیقت امریکہ چین کے لئے خدمات کی تجارت میں سب سے بڑا خسارہ پیدا کرنے والا ملک ہے اور یہ خلا مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔

جب اشیاء کی تجارت، خدمات کی تجارت اور ایک دوسرے کے ممالک میں کام کرنے والی کمپنیوں کی مقامی فروخت کو مدنظر رکھا جائے تو چین اور امریکہ کے درمیان تجارت مجموعی فوائد کے لحاظ سے تقریباً متوازن ہے۔

دریں اثنا چین کی معیشت تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین کا غیر ملکی تجارت پر انحصار نمایاں طور پر کم ہوا ہے۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں یہ 60 فیصد سے زیادہ تھا جو 2024 میں 30 فیصد سے کچھ زیادہ رہ گیا۔

چین اپنی داخلی اقتصادی سرکل کو مضبوط کرتے ہوئے مقامی طلب کو بڑھانے کے لئے کام کر رہا ہے اور ملکی صارفیت اس کی اقتصادی ترقی کی بنیادی قوت بن چکی ہے۔ چین کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کا جی ڈی پی سے تناسب 2007 میں 9.9 فیصد تھا جو 2024 میں 2.2 فیصد تک کم ہوگیا ہے۔

یہ سب ایک سادہ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، چین-امریکہ اقتصادی و تجارتی تعلقات بنیادی طور پر باہمی فائدے اور مفید تعاون پر مبنی ہیں۔ دونوں ممالک وسیع مشترکہ مفادات رکھتے ہیں اور تعاون کے لئے کافی گنجائش موجود ہے۔

سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے دو طرفہ اقتصادی اور تجارتی تعاون مسلسل مضبوط ہوا ہے۔ دونوں ممالک بڑے تجارتی اور سرمایہ کار شراکت دار بن چکے ہیں اور انہوں نے عالمی مالی بحران سے نمٹنے کے لئے مل کر کام کیا ہے۔

چین نے واضح کیا ہے کہ وہ اعلیٰ معیار کی ترقی اور اعلیٰ سطح کی وسعت کے لئے پرعزم ہے۔ وہ ایک عالمی معیار کے کاروباری ماحول کے قیام پر کام کر رہا جو منڈی، قانونی اصولوں پر مبنی اور بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ ہے۔ امریکی کمپنیوں کو چین میں سرمایہ کاری جاری رکھنے، ترقی کے مواقع میں شراکت کرنے اور دو طرفہ تعلقات کی مستحکم، صحت مند اور پائیدار ترقی میں مدد دینے کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔

جیسا کہ سلیکون ویلی انکیوبیٹر فاؤنڈرز سپیس کے سی ای او سٹیو ہوف مین نے شِنہوا کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہاکہ خوشحالی دیواروں کے پیچھے سے نہیں بلکہ کھلے دروازوں کے ذریعے بہترین طریقے سے آتی ہے۔

تجارت میں سیاست اور قومی سلامتی کے خدشات کو حد سے زیادہ بڑھانا اور کمپنیوں کو جانبداری اختیار کرنے پر مجبور کرنا، منڈی کے اصولوں، کھلے پن اور چین و امریکہ دونوں کے بنیادی مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر تاریخ کچھ بتاتی ہے تو جب چین اور امریکہ تعاون کرتے ہیں تو دونوں کو فائدہ ہوتا ہے، جب وہ آمنے سامنے ہوتے ہیں تو دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اقتصادی اور تجارتی تعاون کو مستحکم کرنا باہمی فائدے کا واحد قابل عمل راستہ ہے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!