چین کے شمالی شہر تیانجن میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سربراہ اجلاس 2025 کے مرکزی مقام کا بیرونی منظر ۔(شِنہوا)
تیانجن(شِنہوا)وزیراعظم پاکستان کے سابق معاون خصوصی ظفرالدین محمود نے شِنہوا کو بتایا ہے کہ باہمی آہنگی اور احترام کو فروغ دینے کے لئے تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی پہلے سے کہیں زیادہ اشد ضرورت ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان تعمیری مکالمے کے ذریعے خطے میں امن، استحکام اور تعاون کے فروغ کے لئے ایک مستند پلیٹ فارم بن رہاہے۔
ایس سی او اب 27 اقوام کا خاندان بن چکا ہے اور یہ ایک جامع علاقائی تنظیم میں ڈھل چکی ہے جو دنیا کی تقریباً نصف آبادی، دنیا کے چوتھائی رقبے اور عالمی جی ڈی پی کے چوتھائی حصے پر محیط ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ایس سی او عالمی اور علاقائی دونوں سطح پر امن، ترقی اور خوشحالی کو آگے بڑھانےکے لئے ناگزیر قوت بن گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خاص طور پر علاقائی اقتصادی انضمام اور رابطوں نے ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیان ثقافتی اور تہذیبی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ، چین۔پاکستان اقتصادی راہداری اور چین۔کرغزستان۔ازبکستان ریلوے جیسے منصوبے بہتر رابطوں اور نقل وحمل کی سہولت کے ذریعے ثقافتی تبادلوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ شنگھائی جذبہ جو ایس سی او کا رہنما اصول ہے، باہمی اعتماد، باہمی فوائد، مساوات، مشاورت، متنوع تہذیبوں کے لئے احترام اور مشترکہ ترقی کے لئے کوششیں کرنے پر مبنی ہے، یہ جذبہ اس تنظیم کی ترقی اور وسعت کا روح رواں ہے۔
محمود نے کہا کہ آج کی بکھری ہوئی اورمنقسم دنیا میں کشیدگی کو کم کرنے اور تنازعات و اختلافات کو حل کرنے کے لئے یہ جذبہ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
ان کا چین کے ساتھ تعلق 1976 سے شروع ہوا جب انہوں نے ایک نوجوان طالب علم کی حیثیت سے چین کا پہلا دورہ کیا، جو اس پڑوسی ملک کے متعلق تجسس سے بھرپور تھا۔ محمود نے چین۔پاکستان کے درمیان تقریباً نصف صدی پر محیط تبادلوں کا مشاہدہ کیا ہے، بہت سے پاکستانی طلبہ چین بھر میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف زبان سیکھ رہے ہیں بلکہ طب، سائنس، انجیئنرنگ اور دیگر کئی شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ طلبہ واپس جاتے ہوئے ہم آہنگی اور دوستی ساتھ لے کر جاتے ہیں جو مزید پھیلتی ہے۔
ان کی نظر میں تہذیب ایک ایسا بندھن ہے جو لوگوں کو ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ عالمی تنازعات اور چیلنجز کے تناظر میں باہمی ہم آہنگی، برداشت اور احترام کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ چاہے ممالک کے درمیان ہو یا خاندانوں کے اندر، ہم آہنگی اور احترام پرامن بقائے باہمی کے لئے لازمی شرائط ہیں۔ میں چین کی جانب سے پیش کردہ ‘انسانیت کے مشترکہ مستقبل کی حامل برادری’ کے نظریے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔
یہ تہذیبوں کے درمیان باہم سیکھنے کا بنیادی جزو ہے۔ مارچ 2023 میں تجویز کردہ عالمی تہذیبی اقدام تہذیبوں کے احترام، مشترکہ انسانی اقدار، ثقافتی ورثے اور بین الاقوامی تبادلوں پر زور دیتا ہے۔ یہ ایسے اصول ہیں جو شنگھائی جذبے کی عکاسی کرتے ہیں اور موجودہ چیلنجز کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے کے لئے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
جون 2024 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 جون کو تہذیبوں کے درمیان مکالمے کا دن منانے کے حوالے سے چین کی قرارداد کی متفقہ منظوری دی، جو ایسے اقدامات کی عالمی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
محمود نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے تہذیبی مکالمے اور ہم آہنگی کی حمایت مسلسل بڑھ رہی ہے، جس سے یہ مختلف تہذیبوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے، تاریخی اور ثقافتی فاصلے کم کرنے اور پرامن بین الاقوامی تعلقات قائم کرنے کے لئے ایک نمایاں پلیٹ فارم بن گئی ہے۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی اور عالمی امن و ترقی کے لئے اپنا کردار جاری رکھے گی اور رکن ممالک و شراکت دار بھی تیانجن سربراہ اجلاس میں طے شدہ اہداف کو آگے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔
