بدھ, اکتوبر 8, 2025
پاکستانسپریم کورٹ، 26ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ کی تشکیل پر سوالات

سپریم کورٹ، 26ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ کی تشکیل پر سوالات

سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کیس میںفل کورٹ تشکیل دینے پر سوال اٹھایا ہے کہ کیا آرٹیکل 187کے تحت فل کورٹ کی تشکیل ممکن ہے؟، آئینی بینچ کا تصور پارلیمان نے دیا، عدالت آئین پر انحصار کرتی ہے، ترمیم نہ ہونے پر موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا، آرٹیکل 191اے کو بھولنے سے آئینی بینچ کا وجود ختم ہوجائے گا، پھر ہم آرڈر کیسے کر سکتے ہیں؟۔

بدھ کو سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال پر مشتمل 8رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر لائیو سٹریمنگ سماعت کی۔

حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ 26ویں ترمیم رات کے وقت پارلیمنٹ میں لائی گئی، جسٹس امین الدین نے کہا کہ پہلے بینچ کی تشکیل پر معاونت کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اچھا ہوا یا برا، ان میرٹس کو ابھی رہنے دیں۔حامد خان نے موقف اپنایا کہ میں میرٹس پر نہیں جارہا، صرف کچھ حقائق بتارہا ہوں، ہم اس کیس کی فل کورٹ میں ہی سماعت چاہتے ہیں، وہ والی فل کورٹ جو 26ویں ترمیم کے وقت تھی، اس حساب سے 16رکنی بینچ بنے گا، موجودہ بنچ کے تمام ججز بھی اس وقت موجود تھے، استدعا ہے کہ اس وقت کے بقیہ 8 ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ متفق ہیں اس وقت 26ویں ترمیم کا حصہ ہے یا نہیں؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ اگر فل کورٹ اس ترمیم کو کالعدم قرار دے تو یہ پہلے دن سے ختم تصور ہو گی۔

جسٹس امین الدین نے کہا ہے کہ جب تک کالعدم ہو نہ جائے تب تک تو آئین کا حصہ ہے ناں؟ ،اس وقت آپ دلائل اس ترمیم کو آئین کا حصہ مانتے ہوئے دیں گے، ہم آئین پر انحصار کرتے ہیں، وکلا بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ اسی ترمیم کے تحت بنے بینچ کے سامنے آئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تک اس ترمیم کو معطل نہیں کیا گیا۔جسٹس محمدعلی مظہر نے حامد خان کو ہدایت دی کہ فی الحال مرکزی کیس کو نہیں سن رہے، فل کورٹ کی درخواست پر دلائل دیں، وکیل حامدخان نے موقف اپنایا کہ میں فی الحال بات نہیں کررہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے نکات کیسے آئین کے خلاف ہیں؟۔

انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم سے اختیارات پر پڑے اثرات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، آئینی ترمیم کے بعد بنچز بنانے کا اختیار چیف جسٹس سے پہلی بار واپس لے لیا گیا ہے، آئینی ترمیم میں بنچز بنانے کے طریقہ کار کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ آئینی ترمیم سے قبل بھی جوڈیشل کمیشن موجود تھا، آئینی ترمیم سے جوڈیشل کمیشن کی فارمیشن پر اثر پڑا، 26 ویں آئینی ترمیم میں جوڈیشل کمیشن میں ججز اقلیت میں آگئے ہیں۔

وکیل حامد خان نے جوڈیشل کمیشن کے اراکین کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا، جسٹس امین الدین نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہوا کس بینچ نے کیس سننا ہے، ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں، 26ویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہو سکتا؟ عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟۔

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنی استدعا میں یہ مانگا ہی نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمیں آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟، کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187استعمال کر یں؟۔حامد خان نے استدلال کیا کہ جی بالکل آرٹیکل 187کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے۔

جسٹس مندوخیل نے پوچھا کہ فرض کریں ہم آپ کی بات مانتے ہوئے سپریم کورٹ کے تمام ججز کو آئینی بینچ مان لیں تو کیا آپ مطمئن ہوں گے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ آئینی بنچ کا تصور آپ نے 26ویں ترمیم سے دیا ہے۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آئینی بنچ کا تصور ہم نے نہیں پارلیمان نے دیا ہم پر نہ ڈالیں، حامد خان نے کہا کہ آپ تھوڑی دیر کیلئے آرٹیکل 191اے کو بھول جائیں، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ بھول جائیں تو پھرآئینی بینچ ہی ختم پھر ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر آج سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتا، اگر اس آئینی بینچ کا وجود ختم ہوجائے تو پھر ہم آرڈر کیسے کر سکتے ہیں؟۔بعدازاں ایڈووکیٹ حامد خان کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

انٹرنیوز
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!