جرمنی کی بڑی صنعتی کمپنی ’’بوش‘‘کے چیئرمین اسٹیفن ہارٹنگ نے چین کے ساتھ طویل مدتی تعاون کے عزم کو دوہرایا ہے۔ انہوں نے بدلتے ہوئے عالمی صنعتی منظرنامے میں چین کو ایک اہم اختراعی مرکز قرار دیا ہے۔
ہارٹنگ نے ماحول دوست منتقلی اور ذہانت پر مبنی پیداوار سازی میں چین کے قائدانہ کردار کو سراہا اور عالمی صنعت کے مستقبل کی تشکیل میں اس کے کردار کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ (انگریزی): اسٹیفن ہارٹنگ، چیئرمین بورڈ آف منیجمنٹ، روبرٹ بوش جی ایم بی ایچ
’’ نئی معیاری پیداواری قوتوں کا تصور ایک جدید تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایسی نئی ٹیکنالوجیز کی ضرورت ہو گی جو نا صرف ملکی بلکہ عالمی معیشت میں بھی ایک کردار ادا کریں۔ مثال کے طور پر ہم اپنے ارد گرد بہت سی ٹیکنالوجیز دیکھتے ہیں جیسے بیٹریوں کی تیاری، برقی گاڑیوں اور برقی حرارت کی ٹیکنالوجیز۔ درحقیقت یہی ٹیکنالوجیز وہ اختراعات ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت بھی ایک ٹیکنالوجی ہے جو خاص طور پر مینوفیکچرنگ کے شعبے میں اپنا ایک مقام رکھے گی۔ آپ چین میں بھی ہمارے فیکٹریوں کے اندر دیکھیں گے کہ وہ نئی ٹیکنالوجی سے کس طرح استفادہ کر کےممکنہ طور پر اپنی پیداواری صلاحیت کو ترقی دے رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس قابل بھی ہو گئی ہیں کہ لوگوں کی ضرورت کے مطابق معیاری مصنوعات تیار کر سکیں۔
اس لئے چین کسی طور بھی ایک پیداواری مقام تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ ایک اختراعی مرکز بن چکاہے۔ یہ دنیا کے سامنے نئی ٹیکنالوجیز لا رہا ہے۔ ان ٹیکنالوجیز میں چینی ساختہ گاڑیوں کے اندر خودکار ڈرائیونگ، نئی بریکنگ ٹیکنالوجی اور جدید حفاظتی تکنیکیں شامل ہیں۔ چین اس وقت دنیا میں گاڑیوں کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ اس طرح یہ دیگر خطوں کے لئے ایک اہم برآمد کنندہ بھی ہے۔
ہم تمام وسائل کے ساتھ چین میں اپنی بہت ہی بہتر موجودگی اور مضبوط اثر رکھتے ہیں۔ حقیقی پیداوار اور جدت پسندی کے لئے یہ وسائل ہماری ضرورت ہیں۔ جدت کے فروغ کے لئے عالمی سطح پر تعاون ضروری ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ مجھے پوری امید ہے کہ ہم مستقبل میں ایسا کر سکیں گے۔‘‘
ہانوور، جرمنی سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link