چین کے جنوبی صوبے گوانگ ڈونگ کے شہر شین زین میں خوراک کی ترسیل کرنے والا بغیر پائلٹ ڈرون اڑ رہا ہے-(شِنہوا)
ہیفے(شِنہوا)چین کے مشرقی صوبے انہوئی میں چھاؤہو جھیل کے علاقے سے تعلق رکھنے والی گاؤ چھن مے بے چینی سے اپنے پیکیج کی منتظر تھی۔
780 مربع کلومیٹر چھاؤ ہو جھیل کے وسط میں واقع چھوٹے جزیرے لاؤشان ڈاؤ پر رہنے والی 61 سالہ خاتون جانتی ہے کہ پیکیج کے علاقے میں پہنچنے کے بعد بھی ترسیل میں اکثر وقت لگتا ہے مگر اس مرتبہ گاؤ کو خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ اس کا پیکیج کشتی پر آنے والے عام کوریئر کے برعکس وسیع پھیلے پانی کے اوپر ایک سفید ڈرون کے ذریعے توقع سے پہلے آ چکا تھا۔
9 کلو وزن لے جانے کے قابل اس ڈرون نے جھیل کے ساتھ واقع شہر چھاؤہو میں ڈرون اڑنے کے مقام سے جزیرے تک صرف 4 منٹ میں سفر مکمل کرتے ہوئے کشتی سے ترسیل کے وقت کو تقریباً 2 گھنٹے کم کردیا۔
قابل ذکر طور پر چین میں 2024 کو ’’کم بلندی کی معیشت کے دور کا پہلا سال‘‘ قرار دیا جا رہا ہے جس میں ڈرون ابھرتے ہوئے شعبے میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔
وزارت ٹرانسپورٹ کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوا کہ 2024 میں ملک بھر میں ڈرون کے ذریعے 27 لاکھ پارسلز کی ترسیل ہوئی۔
لنکسم انسٹی ٹیوٹ آف ڈیجیٹل انڈسٹری کی جاری کردہ چین کی کم بلندی کے لاجسٹکس کی ترقی کی رپورٹ کے مطابق اس صنعت کی منڈی کا حجم 2020 میں 27.18 ارب یوآن(تقریباً 3.79 ارب امریکی ڈالر) سے 2023 میں 58.18 ارب یوآن ہوگیا۔اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2025 میں اس منڈی کا حجم 120 ارب یوآن سے 150 ارب یوآن تک پہنچ سکتا ہے۔
ملک کے کئی حصوں میں ڈرون اب ایسے علاقوں میں سامان کی ترسیل کر رہے ہیں جہاں نقل و حمل کے روایتی ذرائع کو پہنچنے میں مشکل ہوتی ہے۔
کاروباری ماہرین نے مستقبل کو دیکھتے ہوئے خیال ظاہر کیا ہے کہ واضح پالیسی منصوبہ بندی اور مسلسل ٹیکنالوجی پر مبنی تخلیقی جدت اس صنعت کی ترقی کو مزید فروغ دےگی۔
