سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کاٹرائل غیرآئینی قراردینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7رکنی آئینی بینچ نے فیصلہ سنادیا، آئینی بینچ نے5-2کے تناسب سےفیصلہ سنایا۔ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان نے اختلاف کیا۔ اکثریتی فیصلے میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو درست قرار دیدیا گیا۔
آئینی بینچ نے23 اکتوبر2023کا فیصلہ کالعدم قراردیا، آرمی ایکٹ کی کالعدم قراردی گئی شقیں بھی بحال کردی گئیں۔
فوجی عدالتوں کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینے کیلئے معاملہ حکومت کوبھجوا دیا گیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت 45 دن میں اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے، ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دینے کیلئے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی کو 39 ملٹری املاک کو نشانہ بنایا گیا، کورکمانڈرز ہاؤس لاہور کے گھر پر حملہ کیا گیا۔ احتجاج کا آئینی حق لامحدود نہیں، احتجاج کے آئینی حق کی قانونی حدود و قیود ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا، اقلیتی فیصلے کے مطابق سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ تمام افراد بری کیے جاتے ہیں، فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونے والے تمام مقدمات متعلقہ سول عدالتوں کو منتقل کیے جائیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے لیے گزشتہ سال 6 دسمبر کو جسٹس امین الدین خان کی سرابراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا تھا جس نے 9 دسمبر کو اپیلوں پر سماعت شروع کی تھی۔
بعدازاں مقدمے کی سماعت کے دوران آئینی عدالت نے 13 دسمبر 2024 کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے، جس کے بعد فوجی عدالتوں نے پہلے مرحلے میں 21 دسمبر کو 20 ملزموں کو 10 سال تک قید کی سزا سنائی تھی۔
