قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے مقدمات مقرر کرنے کے اختیارات کے تنازع پر جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے جسٹس بابر ستار کے آرڈر کی تائید کر تے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ چیف جسٹس ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈر کے تحت اختیارات کو مدنظر رکھ کر قانون کے مطابق آرڈر کریں، توقع ہے مقدمات کی ہنگامی نوعیت کو مدنظر رکھ کر متعلقہ بنچز کے سامنے جلد مقرر کئے جائیں گے۔
پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس سردار اسحاق خان اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جسٹس سردار اعجاز خان کی عدالت سے مقدمہ منتقل کرنے بارے درخواست پر سماعت کی ۔ عدالت نے سنگل بینچ کے مقدمات اچانک ڈویژن بینچ کو منتقل کرنے پر حیرانی کا اظہار کیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ سنگل بینچ کا کیس ڈویژن بینچ میں کس قانون کے تحت بھیجا جا سکتا ہے؟ ،فریقین کے وکلاء نے یک زبان ہوکر جواب دیا کہ ہم سب بھی اسی پر پریشان ہیں کہ کیسے قائم مقام چیف جسٹس کے آرڈر سے کیسز ڈویژن بنچ کو منتقل کئے گئے؟۔جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کسی کو اس مخصوص اختیار سے متعلق معلوم ہے؟ ،وکیل نے کہا کہ جسٹس ارباب طاہر کے پاس شائد کوئی کیس تھا تو انہوں نے ڈویژن بینچ بنانے کیلئے لکھا۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ یہ تو کمیشن بنانے کی درخواست ہے، 21ٹیکس مقدمات بھی اس کیساتھ ٹرانسفر کر دیئے گئے۔انہوں نے کہا کہ ایکٹنگ چیف جسٹس کے کیس منتقل کرنے کے آرڈر میں کسی مخصوص قانونی شق کا حوالہ موجود نہیں، ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا بھی اس بارے کوئی آرڈر موجود نہیں ۔انہوں نے کہا کہ جسٹس بابر ستار اس بارے ایک آرڈر پاس کر چکے ہیں انہوں نے چیف جسٹس کے کیسز مقرر کرنے کے اختیارات سے متعلق لکھا ہے ۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ کیس ایک سنگل بینچ تفصیل میں سن چکا ہے، بغیر کسی جواز کے کیس دوسرے بینچ کو منتقل کرنا مناسب نہیں، رجسٹرار آفس کیسز کو قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے رکھے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈر کے تحت اپنے اختیارات کو مدنظر رکھ کر قانون کے مطابق آرڈر کریں، توقع ہے مقدمات کی ہنگامی نوعیت کو مدنظر رکھ کر متعلقہ بنچز کے سامنے جلد مقرر کئے جائیں گے۔بعد ازاںکیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔
