پیر, اکتوبر 6, 2025
پاکستانچینی استاد اور پاکستانی شاگرد کی تین نسلوں پر محیط کہانی

چینی استاد اور پاکستانی شاگرد کی تین نسلوں پر محیط کہانی

طلبہ  یوم اساتذہ کے موقع پر یان لی (بائیں سے دوسرے) کو اظہار عقیدت کے طور پر پھول پیش کر رہے ہیں۔(شِنہوا)

ارمچی/اسلام آباد (شِنہوا) "میرا دوست میرے ساتھ ہو تو مشکل وقت بھی ہمیشہ کے لئےرخصت ہو جاتے ہیں۔”یہ آواز چینی زبان کے پاکستانی اُستاد نعیم خان کی تھی جو کمپیوٹر اسپیکر سے ابھری اور سنکیانگ نارمل یونیورسٹی کے کیمپس میں یان لی کے دفتر میں ایک بار پھر گونجی۔ یہ سن کر یان لی کی آنکھوں میں آنسو  آگئےکیونکہ یہ وہی نغمہ "دوست” تھا جو انہوں نے اپنے تدریسی سفر کے آغاز میں نعیم کو کلاس میں سکھایا تھا۔

اس مقبول چینی نغمے کی دھن نے آہستگی سے وہ یاد تازہ کر دی جو سرحد پار دو نسلوں پر محیط رشتہ ہے اور جس کی جڑیں پندرہ برس پیچھے تک جاتی ہیں۔

سال 2010 میں پاکستانی طالب علم نعیم چینی زبان سیکھنے کے لئےسنکیانگ نارمل یونیورسٹی پہنچا۔ اسے اچھی طرح یاد ہے "یہ پہلا موقع تھا کہ میں چین آیا۔ میں نے یہاں آنے سے پہلے کبھی چینی زبان نہیں سیکھی تھی۔” اجنبی ماحول میں وہ کچھ تذبذب کا شکار اور محتاط دکھائی دیا۔

اس کے باوجود اس کی اُستاد یان لی نے اسے ایک شوقین اور محنتی شاگرد کے طور پر پہچان لیا تھا۔ان کے بقول "وہ ہرن کے کسی گمشدہ بچے کی طرح بے اطمینانی اور الجھن کا شکار ضرور تھا مگر نہایت سرگرم رہتا۔وہ ہمیشہ کلاس کی پہلی رَو میں بیٹھتا تھا۔” یان لی اس وقت بین الاقوامی ثقافتی تبادلے کے کالج میں غیرملکی طلبہ کے شعبے کی سربراہ ہیں لیکن کئی برس گزر جانے کے بعد بھی وہ اس لڑکے کو آج بھی یاد رکھتی ہیں جو انہیں ہمیشہ "ماں” کہہ کر پکارتا تھا۔

یان لی کو فکر رہتی تھی کہ غیرملکی طلبہ شاید مقامی کھانوں کے عادی نہ ہوں یا انہیں مناسب غذائیت نہ مل رہی ہو۔ اسی لئے وہ صبح کی مطالعے کی کلاس سے پہلے کمرۂ جماعت میں ان کے لئے دودھ ابال کر لایا کرتی تھیں۔ ان کے زیرِ تربیت طلبہ کے ذہنوں میں برسوں بعد آج بھی اس دودھ کی گرم خوشبو ایک نمایاں اور روشن یاد کے طور پر موجود ہے۔

استاد کی لگن صرف کمرہ جماعت کی دیواروں تک محدود نہیں تھی۔ یان لی طلبہ کو فیکٹریوں اور تفریحی مقامات کے دوروں پر لے جایا کرتی تھیں۔ ان دوروں نے طلبہ کو نہ صرف ثقافت سے قریبی شناسائی فراہم کی بلکہ انہیں یہ موقع بھی دیا کہ وہ اپنی آنکھوں سے چین کی ترقی دیکھ سکیں۔

ایک سال چنگ مِنگ فیسٹیول کے موقع پر جب یان لی اپنے غیر ملکی طلبہ کو سنکیانگ کے اس قبرستان لے گئی جہاں جانیں قربان کرنے والے چینی ہیروز دفن ہیں۔یہ وہ لمحہ تھا جب نعیم کو اچانک اپنے وطن سے گہرےتعلق کا احساس ہوا۔پاکستانی طالبعلم کو گلگت میں واقع چینی ہیروز کا قبرستان بھی یاد آگیا جہاں ان 88 چینی انجینئرز اور مزدور وں کی قبریں ہیں جو قراقرم ہائی وے کی تعمیر کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

اس نے یان لی کو بتایا کہ "ہم اپنے وطن میں بھی اس قبرستان پر حاضری دیتے ہیں۔‘‘ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ” اخلاص پر مبنی دوستی کبھی ختم نہیں ہوتی، یہ نسل در نسل آگے بڑھتی رہتی ہے۔”

یہ اہم شاہراہ خونِ جگر اور انتھک محنت سے تعمیر ہوئی تھی۔ اسے پیار سے "چین پاکستان دوستی ہائی وے” کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد گزرنے والی دہائیوں میں یہ شاہراہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے چین جانے کا باعث بنی جس نے سرحد پار گہری دوستیوں کو جڑیں پکڑنے اور پروان چڑھنے کا موقع دیا۔ ان پاکستانیوں میں نعیم جیسے طلبہ بھی شامل ہیں جنہیں یہاں صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بہت کچھ ملا۔

نعیم کو اب بھی یاد ہے "ہمارے لئےوہ صرف ٹیچر یان لی نہیں تھیں بلکہ ‘ماں’ تھیں،” یادوں کو دہراتے ہوئے اس کے لہجے میں پیار اور گرمجوشی اتر آئی۔ وہ گویا ہوا "ہم اپنی چینی ماں کو دل و جان سے چاہتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کی طرح ہماری دیکھ بھال کی۔ وہ ہماری ہچکچاہٹ بھری ہر بات کو سمجھ لیتی تھیں حتیٰ کہ  اُس وقت بھی جب ہم خود ابھی زبان کو پوری طرح نہیں سمجھ پاتے تھے۔”

یان لی (بائیں سے دوسرے) اور نعیم خان (بائیں سے پہلے) 2012 میں ارمچی کے ایک پارک کے سامنے تصویر کے لئے پوز دیتے ہوئے۔(شِنہوا)

گریجویشن کے بعد نعیم اپنے آبائی شہر راولپنڈی لوٹ آیا۔ وہ اپنے ساتھ صرف ڈگری ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ لے کر آیا تھا۔ وہاں اس نے چینی زبان کے استاد کے طور پر اپنے  کیریئر کا آغاز کیا تاکہ یہ خاص رشتہ جس کا وہ خود تجربہ کر چکا تھا نئی نسل تک بھی منتقل ہو سکے۔

بالآخر سال 2024 میں یہ تعلق  اس وقت ایک نئے موڑ پر پہنچا جب احمد بلال نے سنکیانگ نارمل یونیورسٹی میں انڈر گریجویٹ کے طور پر داخلہ لیا۔ احمد بلال وہ  پاکستانی طالبعلم تھا جس نے نعیم سے چینی زبان سیکھی۔ ایک ملاقات کے دوران احمد بلال نے یان لی کو ایک دہائی پرانی ایک  تصویر دکھائی جس میں نوجوان نعیم اُن کے ساتھ کھڑا تھا۔ اپنے اُس پہلے شاگرد کو دیکھ کر جو اب خود ایک استاد بن چکا تھا یان لی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں۔

حالیہ برسوں میں چینی زبان پر عبور نے پاکستانی نوجوانوں کے لئے نئی راہیں کھول دی ہیں جبکہ چین پاکستان تعاون نے دونوں ملکوں کے عوام کو عملی فوائد پہنچائے ہیں۔

احمد بلال نے کہا "چینی زبان سیکھنے کے نتیجے میں ہمارے لئے  زیادہ مواقع پیدا ہوئے ہیں،میں نے استاد نعیم کی نصیحت پر عمل کیا اور چین چلا آیا۔”

احمد بلال بھی اپنے مستقبل کو مواقع سے بھرپور اسی منظرنامے میں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا "شاید میں بھی اپنے بھائی کی طرح تجارت کے شعبے میں کام کروں۔” ان کا مزید کہنا تھا "میں واقعی پُرامید ہوں کہ ہم اپنے مشترکہ مستقبل میں بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔”

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!