امریکہ کےشہر نیویارک کے ایک سینما گھرمیں فلم بین ’’ڈیڈ ٹو رائٹس‘‘ کے پوسٹر کے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔(شِنہوا)
نیویارک(شِنہوا)یاد رکھنا کوئی اختیار نہیں بلکہ یہ ایک فرض ہے جو ہم تاریخ اور انسانیت پر قرض رکھتے ہیں۔ لیکن صرف یادداشت کافی نہیں، ہمیں انکار کے مقابلے میں سچ کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے۔ نئی چینی فلم "ڈیڈ ٹو رائٹس” اس ذمہ داری کو پراثر انداز میں اجاگر کرتی ہے۔ یہ صرف ایک فلمی تخلیق نہیں بلکہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کی پکار ہے۔
امریکہ-چائنہ پبلک افیئرز انسٹی ٹیوٹ کے صدر فریڈ ٹینگ لکھتے ہیں کہ کہانی دسمبر 1937 میں نان جنگ کے ایک چھوٹے فوٹو سٹوڈیو اور اس کے آس پاس کے محلے میں گھومتی ہے جب شہر جاپانی فوج کی بے رحمی کا شکار ہو رہا تھا۔ فلم میں جرنیلوں یا فوجیوں کے بجائے عام شہریوں کی زندگیوں کو دکھایا گیا ہے۔ ایک لرزتے ہوئے ہاتھ میں خاندان کی تصویر، ماں کا بچے کو تسلی دینا، دروازے کی اچانک دستک کے بعد کی خاموشی، یہ مناظر جنگ کی اصلی قیمت کو بیان کرتے ہیں۔
ہدایت کار نے جان بوجھ کر سنسنی خیزی سے گریز کیا، تشدد کو چھپایا نہیں گیا بلکہ اسے خاموشی، غیر موجودگی اور خوف کے ذریعے ضبط کے ساتھ پیش کیا گیا۔ فلم میں دکھائے گئے ہر ہولناک واقعے میں ان تاریک دنوں کے دوران پیش آنے والے لاکھوں ایسے لمحات کی حقیقت کی جھلک ملتی ہے۔ اگرچہ سکرین پر خونریزی کو کم سے کم رکھا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1937 میں نان جنگ اور چین کے کئی دیگر شہروں کی گلیوں میں خون بہتا رہا۔ ایک ناقابل فراموش منظر میں فوٹو سٹوڈیو کا ڈارک روم خاندانی تصاویر سے بھر جاتا ہے جب کہ باہر کی زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے۔ یادداشت خود ایک مزاحمت کی علامت بن جاتی ہے۔
فلم کی طاقت اس کی اداکاری اور سینماٹوگرافی میں بھی ہے۔ اداکاری سادہ مگر دل کو چھو لینے والی ہے جو ان کرداروں کو عزت دیتی ہے جو بے شمار حقیقی زندگیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ مدھم اور سائے دار تصویری انداز ایک ایسے شہر کو دکھاتا ہے جو ظلم کے نیچے دب رہا ہے مگر پھر بھی انسانیت کی نازک کرنوں کو تھامے ہوئے ہے۔
کچھ مغربی ناظرین کے لئے بغیر تفصیلی وضاحتی بیانیہ کے فلم دیکھنا الجھن پیدا کرسکتا ہے لیکن یہ چیلنج عالمی یادداشت میں ایک بڑے عدم توازن کی عکاسی کرتا ہے۔ مغرب میں ہولوکاسٹ کو صحیح معنوں میں پڑھایا، یاد رکھا اور فلموں، کتابوں اور عجائب گھروں میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ اس کا خوفناک سبق نسل در نسل باقی رہے۔ اس کے برعکس نان جنگ قتل عام جہاں 3 لاکھ سے زائد انسان قتل ہوئے اور لاکھوں زندہ اذیت برداشت کرتے رہے۔ مغربی تعلیمی اداروں یا میڈیا میں اس کا شاذ و نادر ہی ذکر ہوتا ہے۔ یہ عدم توازن لاعلمی کو بڑھاتا ہے اور 20 ویں صدی کے سب سے بڑے مظالم میں سے ایک کو چین کے باہر تقریباً غائب رکھتا ہے۔
