بدھ, ستمبر 3, 2025
تازہ ترینیان آن، چھونگ چھنگ اور شین یانگ میں جنگِ مزاحمت کی یادیں...

یان آن، چھونگ چھنگ اور شین یانگ میں جنگِ مزاحمت کی یادیں آج بھی زندہ ہیں

یان آن، چھونگ چھنگ اور شین یانگ چین کے نقشے پر ایک تکون بناتے ہیں۔

سینکڑوں دیگر شہروں کی طرح یہ تین شہر بھی سال 1931 سے سال 1945 کے دوران جاپانی جارحیت کے خلاف چین کے عوام  کی جنگِ مزاحمت کی یادیں اپنے اندر محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔

18 ستمبر 1931 کو جاپانی فوج نے شین یانگ کے قریب اپنے ہی زیرِ انتظام ریلوے لائن کا ایک حصہ دھماکے سے اڑا کر الزام چینی فوج پر دھرا اور اسی بہانے حملہ کر دیا۔ اسی رات فوجی بیرکوں پر بمباری کی گئی جو چین پر 14 سالہ جاپانی جارحیت کی شروعات تھی۔

ساؤنڈ بائٹ 1 (چینی): یانگ ہوا فینگ، جنگِ مزاحمت میں شریک سابق فوجی

"جاپانی حملہ آور چین آئے۔ یہاں انہوں نے جسے چاہا قتل کیا۔ جہاں چاہا  آگ لگائی۔ انہوں نے گھروں کو جلا ڈالا۔ کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کو بلا وجہ تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔”

جاپانی حملہ آوروں نے جلد ہی چین کا پورا شمال مشرقی حصہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کے باوجود مزاحمت کا سلسلہ کبھی نہیں تھما۔

یانگ آج بھی گوریلوں کی بہادری یاد کرتے ہیں۔ انہیں اب بھی یاد ہے کہ گوریلا جنگجوؤں کی تعداد زیادہ سے زیادہ  200 یا 300 ہوتی تھی۔ لیکن جب بھی وہ جاپانی فوج کے کسی یونٹ کو دیکھ لیتےتو اس کا صفایا کر دیتے۔ ہتھیاروں کی کمی کے باوجود ان جنگجوؤں نے خود اپنے تیارکردہ اسلحہ اور دشمن سے چھینے گئے ہتھیاروں کی مدد سے لڑائی جاری رکھی۔

1937 میں جاپانی فوج نے بیجنگ پر چڑھائی کرتے ہوئے چین کے خلاف بڑے پیمانے پر جارحانہ جنگ کا آغاز کر دیا۔

بیجنگ کے بعد شنگھائی، نانجنگ اور ووہان جیسے بڑے شہر بھی تیزی سے جاپانی قبضے میں آگئے۔ اس کے نتیجے میں قومی دارالحکومت کو چین کے مشرقی علاقے میں واقع نانجنگ سے ملک کے جنوب مغربی شہر چھونگ چھنگ منتقل کر دیا گیا۔

چین کو جھکانے  کی کوشش میں جاپانی جنگی طیاروں نے 6 سال تک چھونگ چھنگ پر بمباری کی جس میں 32 ہزار سے زائد لوگ مارے گئے یا زخمی ہوئے۔

لونگ چی مِنگ بنیادی طور پر ہانگ کانگ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ وطن واپس آ کر چینی فضائیہ کا حصہ بن گئے۔

ساؤنڈ بائٹ 2 (چینی): لونگ چی منگ، وفات پانے والا فلائنگ ٹائیگر پائلٹ (سال 2014 میں لیا گیا انٹرویو )

"میری خواہش صرف یہ تھی کہ جاپانی حملہ آوروں سے لڑوں۔ فضائیہ میں شامل ہونا میرے لئے اعزاز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ جاپانی حملہ آور ہمارے دروازے تک پہنچ آئےتھے۔ ان کے خلاف لڑنا ہمارا فرض تھا۔”

لڑائی کے دوران کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے ہمہ گیر مزاحمت اور طویل مدتی جنگی حکمتِ عملی اپنائی۔ پارٹی نے گوریلا لڑائی کو منظم کیا، بیس کیمپ بنائے اور لوگوں کو متحرک کیا۔

ژانگ شِن نے سال 1941 میں صرف 14 سال کی عمر میں  آٹھویں روٹ آرمی جوائن کی جو گوریلا حکمتِ عملی کے تحت لڑ رہی تھی۔

ژانگ کے بقول شہر جاپانیوں کے قبضے میں تھے۔ اس لئے ہم نے دیہات میں اپنے اڈے بنائے کیونکہ دیہی علاقے بہت وسیع تھے۔

ساؤنڈ بائٹ 3 (چینی): ژانگ شِن، جنگِ مزاحمت میں شریک سابق فوجی

"ہمیں موت کا خوف نہیں۔ غلامی قبول کرنےسے بہتر ہے کہ مر جائیں۔”

سال 1945 میں جنگ کے اختتام تک کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ (سی پی سی) کے زیرِ انتظام اڈے تقریباً 10 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے تھے جہاں لگ بھگ 10 کروڑ لوگ رہائش پذیر تھے۔

آخرکار سال 1945 میں 14 سالہ مزاحمت کے بعد چین نے فتح حاصل کر لی۔ اس فتح کے لئے 3 کروڑ 50 لاکھ فوجیوں اور عام شہریوں نے اپنی زندگیاں قربان کیں۔

بیجنگ، شین یانگ، چھونگ چھنگ اور شی آن، چین سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹیکسٹ آن سکرین:

یان آن، چھونگ چھنگ اور شین یانگ جنگِ مزاحمت کی یادگار ہیں

یہ جنگ چین کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جانے والی داستان ہے

چینی عوام نے جاپانی فوج کا 14 سال تک ڈٹ کر مقابلہ کیا

’یان آن‘ شہر  اس جنگ میں عوامی جدوجہد کا مرکز بن کر ابھرا

جنوب مغربی شہر چھونگ چھنگ اس دوران ملک کا دارالحکومت رہا

شین یانگ نے سب سے پہلے جارحیت کے زخم برداشت کئے

ساڑھے 3 کروڑ چینیوں نے جانیں دے کر دشمن کو پسپا کیا

عوام اور فوج کا اتحاد اس جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار تھا

جنگِ مزاحمت نے تاریخ کی سمت ہمیشہ کے لئے بدل دی

تینوں شہر آج بھی بہادری اور قربانیوں کی یاد دلاتے ہیں

ان یادوں نے نئی نسلوں کو حوصلہ اور عزم عطا کیا ہے

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!