’’ بوآو فورم فار ایشیا دنیا میں کھلے اور جامع مکالمے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ اس پلیٹ فارم نے اہم مسائل پر عالمی اتفاق رائے قائم کرنے کا ایک واضح پیغام دیا ہے۔ فورم کے شرکاء نے کثیرالجہتی، عالمی حکمرانی اور وسیع تر تعاون کے فروغ پر بھرپور زور دیا ہے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): مچل گیراسی، سابق انڈر سیکرٹری، وزارت اقتصادی ترقی، اٹلی
’’ جب آپ کے پاس ایک کثیر قطبی دنیا ہو تو ایسا بالکل ممکن نہیں ہے کہ ایک فریق جیتے اور دوسرا مکمل ہار جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ملک دوسروں کی نسبت زیادہ ترقی کرلے لیکن دوسرے بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقی کریں گے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): جیفری ساکس، پروفیسر شعبہ معاشیات، کولمبیا یونیورسٹی
’’ جنہیں ابھرتی ہوئی ترقی پذیر معیشتیں کہا جاتا ہے وہ اب پہلے سےہی زیادہ آمدنی کے حامل ممالک کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ترقی کریں گی۔فرق کم ہوتا جائے گا۔ ہم ایک کثیر قطبی دنیا میں ہوں گے اور یہ ایک ایسی دنیا ہوگی جس میں ٹیکنالوجی کے فائدے زیادہ مساوی طور پر تقسیم ہوں گے۔‘‘
دنیا میں جاری تبدیلیوں کے دوران، بوآؤ فورم فار ایشیا میں یہ اتفاق رائے پایا گیاہے کہ عالمی حکمرانی میں دنیا کے جنوبی خطے کے ممالک کی شرکت میں اضافہ شمولت پر مبنی منصفانہ ترقی کے فروغ کا باعث بنے گا۔ یہ صورتحال دنیا کے شمال اور جنوب دونوں کے لئے فائدہ مند ہوگی۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (انگریزی): مچل گیراسی، سابق انڈر سیکرٹری، وزارت اقتصادی ترقی، اٹلی
’’ ہمیں یہ کہانی بیان کرنے کی ضرورت ہے جو ایک حقیقت ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر ہم یورپی اور مغربی ممالک کی معیشتوں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں دنیا کے جنوبی خطے کی ترقی کو بھی قبول کرنا ہوگا، اسے بھی اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور اور اس کے ساتھ مثبت رویہ اپنانا ہوگا۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 4 (انگریزی): وانگ شیاؤجن، ٹرسٹ فنڈ ڈائریکٹر، اقوام متحدہ دفتر برائے جنوب جنوب تعاون
’’ حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ دنیا کا جنوبی خطہ عالمی امور میں زیادہ فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں ترقی پذیر ممالک کی آوازیں زیادہ مؤثر اور صاف انداز میں بلند ہو رہی ہیں۔
اس لئے میرے خیال میں دنیا کے جنوبی خطے کو عالمی امور پر اثر انداز ہونے کے لئے اپنا مؤقف جامع انداز میں پیش کرنا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے مختلف ضرورتوں اور ترقیاتی سیاق و سباق کو مدنظر رکھا جئے۔ ایسا کرنے سے ہی عالمی جنوب نا صرف تنوع میں اتحاد کی طاقت حاصل کر سکتا ہے بلکہ پوری دنیا کو بھرپور شمولیت پر مبنی ایک منصفانہ اور عادلانہ عالمی حکمرانی کے حصول میں مدد بھی دے سکتا ہے۔‘‘
ایک ایسے دور میں جبکہ جغرافیائی سیاسی کشیدگیاں عروج پر ہیں اور دنیا باہمی تعاون کے حوالے سے ہم آہنگ نہیں، چین نے شمولیت پر مبنی ترقی اور بہتر عالمی حکمرانی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
شرکاء کا کہنا ہے کہ عالمی مسائل کے حوالے سے چین کے پیش کردہ حل کو تیزی سے قبولیت مل رہی ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 5 (انگریزی): آنگ ٹی کیٹ، صدر، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کاکوس برائے ایشیا پیسیفک، ملائیشیا
’’ چین نے دنیا کے جنوبی خطے کے ممالک کو ایک قابل عمل متبادل فراہم کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو صرف مغربیت پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا کے ہر ملک کا ایک اپنا راستہ ہے۔
اس لئے ہمیں اپنی قومی ترقی کے مسائل کا بہترین حل اپنے ہی ثقافتی ورثے اورسماجی ڈھانچے کی خصوصیات میں ملے گا۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 6 (انگریزی): جیفری ساکس، پروفیسر شعبہ معاشیات، کولمبیا یونیورسٹی
’’چین کی اپنی کامیابیاں ہیں۔ چین ایک قابل تقلید مثال ہے۔ مثال کے طور پر افریقہ بھی اس سے آئندہ دہائیوں میں بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ چین اقوام متحدہ کے منشور میں کثیرالجہتی حکمت عملی کا حامی ہے۔ چین، امن کی ایک ایسی مثال ہے جو بہت زیادہ تعریف کے قابل ہے۔
چین کی اپنی عظیم پیداواری صلاحیت ہے۔ چین اپنی جدت پسندی کی عظیم صلاحیت کو استعمال میں لا کر ساری دنیا کو جدید ترین ٹیکنالوجی اور بنیادی سہولیات میں اشتراک کا موقع دے رہا ہے۔ یہ باقی دنیا کو تیز سے آگے بڑھنے میں مدد دے رہا ہے۔ چین پائیدار انداز میں معاشی ترقی کے حصول میں دنیا کا معاون ہے۔‘‘
بوآؤ، چین سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link