چین کے جنوب مشرقی صوبے فوجیان کی یونشیاؤ کاؤنٹی میں ژانگ جیانگ کو قومی مینگروو قدرتی تحفظ گاہ میں مہمانوں کو پودوں کے بارے میں بریفنگ دی جارہی ہے-(شِنہوا)
سڈنی(شِنہوا)آسٹریلیا کی قیادت میں ہونے والی ایک بین الاقوامی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران پودوں اور جانوروں میں جینیاتی تنوع میں کمی آئی ہے۔
یونیورسٹی آف سڈنی کی جانب سے شائع ہونے والی اس تحقیق میں 1985 سے 2019 کے درمیان تمام زمینی اور سمندری علاقوں میں جانوروں، پودوں اور پھپھوندی کی 628 اقسام کے جینیاتی تنوع کا تجزیہ کیا گیا۔
چین، برطانیہ، یونان، سپین، سویڈن اور پولینڈ کے محققین پر مشتمل اس ٹیم نے دریافت کیا کہ جن اقسام کا تجزیہ کیا گیا ان میں سے دو تہائی جینیاتی تنوع میں کمی کا شکار ہیں۔
جینیاتی تنوع کو برقرار رکھنا تحفظ کے لئے اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ انواع کو جینیاتی خصوصیات کی وسیع رینج فراہم کرکے بدلتے ہوئے ماحول کے مطابق ڈھلنے کی اجازت دیتا ہے۔
سڈنی یونیورسٹی کے سکول آف لائف اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز سے تعلق رکھنے والی اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ کیتھرین گریبر کا کہنا ہے کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تحفظ کی کوششیں برقرار ہیں اور بعض معاملات میں جینیاتی تنوع میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا بھر میں حیاتیاتی تنوع میں غیر معمولی شرح سے کمی آ رہی ہے تاہم امید کی کرن باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل کے چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹنے کے لئے تحفظ پسندوں کا اقدام ان نقصانات کو ختم کر رہا ہے اور یہ جینیاتی طور پر متنوع آبادیاں پیدا کرنے میں مدد کر رہا ہے۔
محققین نے دریافت کیا کہ تحفظ کی کوششیں جو جینیاتی تنوع کو بہتر بنا سکتی ہیں ان میں کیڑوں یا جنگلی جانوروں کو قابو کرنا، آبادی پر قابو پانا تاکہ باقی رہنے والوں کے حالات کو بہتر بنایا جاسکے اور افزائش نسل کے لئے آبادیوں میں نئے آبادکاروں کو متعارف کرایا جاسکے۔
نئی تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ ان کے نتائج تحفظ کی مزید کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔
