بدھ, فروری 19, 2025
انٹرنیشنلبے گھر فلسطینیوں کی ثابت قدم جذبوں کے ساتھ تباہ شدہ گھروں...

بے گھر فلسطینیوں کی ثابت قدم جذبوں کے ساتھ تباہ شدہ گھروں کو واپسی

غزہ کی پٹی کے وسطی علاقے میں واقع مغازی مہاجر بستی میں ایک لڑکی اسرائیلی بمباری سے تباہ شدہ عمارت کے ملبے پر کھڑی ہے-(شِنہوا)

غزہ(شِنہوا)غزہ شہر اور غزہ کی شمالی پٹی کا منظر نامہ کھنڈرات میں گم ہے جو خطے کو لپیٹ میں لینے والے تشدد کی یاد دلاتا ہے۔حال ہی میں اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت حاصل کرنے والے بے گھر فلسطینیوں کے لئے ان کے گھروں کی باقیات نے دوبارہ حاصل کی گئی زندگی کی نازک امیدیں چکنا چور کردی ہیں۔

کئی سال غزہ کے جنوبی حصے میں گزارنے اور حتیٰ کہ محفوظ قرار دئیے گئے علاقوں میں بھی بے رحم اسرائیلی بمباری کا سامنا کرنے کے بعد یہ بے گھر افراد اب جانے پہچانے مقام میں دلجوئی کے طلب گار ہیں مگر انہیں ایک تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑا جس میں ان کا گھر نا قابل شناخت تھا۔

غزہ شہر کے علاقے تل الہوا کی رہائشی مریم ابو شاہلہ نے شِنہوا کو بتایا کہ عربی کی لغت میں تمام الفاظ بھی اس وحشت کو بیان نہیں کرسکتے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔

واپس آنے پر اس نے دیکھا کہ یادوں سے بھرپور اس کا محلہ 25 سال بعد ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا۔

بارود کی بو اب بھی ہوا میں پھیلی ہوئی ہے جو علاقے کو تباہ کرنے والے تشدد کا ثبوت ہے۔واپس آنے والے افراد چہروں پر غیر یقینی اور کرب کے ساتھ ملبے پر چلے تو ان کا ہر قدم دکھ کے وزن سے بھاری تھا۔

ملبے پر ایک مشکل سفر کے بعد واپس آنے والے کچھ افراد اپنے گھروں کی باقیات پر بیٹھ گئے جو اس نقصان سے لبریز تھے جس کا انہوں نے سامنا کیا۔ ان میں سے ایک شخص عبدالرحمان ابوسِتا تھا جو ایک سال قبل بیت لاہیا سے انخلا کے بعد یہاں واپس آیا۔اس نے یہ تکلیف دہ حقیقت بیان کی کہ اس کا محلہ مکمل طور پر مٹ چکا ہے۔

اس کا کہنا تھا  کہ یہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ نہیں تھی بلکہ فلسطینی بقا اور ہماری زندگیوں اور مستقبل کی جنگ تھی۔

غزہ کے تعلقات عامہ کے افسر حسنی موحنا نے شِنہوا سے اس غیر معمولی بحران کے حوالے سے گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ شہر میں بنیادی شہری سہولیات مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ہم پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کےلئے ہر ممکن کام کر رہے ہیں۔

حسنی نے کہا کہ ہم نے پانی کے کچھ کنوؤں اور نیٹ ورکس برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے مگر بین الاقوامی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔خوراک کی قلت،ادویات اور شیلٹر کی فراہمی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے یہ صورتحال ہماری صلاحیت سے باہر ہے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!