منگل, جنوری 14, 2025
پاکستانملک دیوالیہ ہونے کے قریب ، حکومت کی توجہ ٹیکس لگانے پر...

ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ، حکومت کی توجہ ٹیکس لگانے پر ہے،مولانا فضل الرحمن

اسلام آباد :  سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، حکومت کی توجہ ٹیکس لگانے پر ہے، ملک کے بیشتر علاقوں میں صورتحال فاقوں تک پہنچ چکی ہے،عزم استحکام کے نام پر پتا نہیں کیا چیز شروع کردی گئی ہے ،اسٹیبلیشمنٹ کا موقف بھی واضح نہیں ہے،ریاست نے ہمیں کہاں کھڑا کردیا ہے؟، کیا بطور شہری ہم ریاست پر کوئی حق نہیں رکھتے، ریاست شکی القلب ، پارلیمان اپنا مقدمہ ہار چکی ہے، اسٹیبلشمنٹ سیاست سے باہر ہوجائے تو خیر ہوجائے گی۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی بجٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایوان کے سامنے اپنے کچھ تحفظات رکھنا چاہتا ہوں، میں یہ نہیں کہتا کہ میں کوئی اقتصادی ماہر ہوں ،ایسے ارکان موجود ہیں جو بجٹ پر تکنیکی بحث کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں 1988ء سے اس ایوان میں ہوں بہت سارے بجٹ دیکھ چکا ہوں، جتنے بجٹ پیش کئے گئے حکومتیں انہیں عوام دوست قرار دیتی رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج دیکھنا ہوگا کہ ملک میں معیشت کی کیا حالت ہے، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور آپ کی توجہ ٹیکس لگانے پر ہے، بجٹ میں ہر شعبے ،ہر کمائی ،ہر کاروبار پر ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں، آپ قوم سے ٹیکس دینے کا مطالبہ تو کرتے ہیں مگر حقوق نہیں دے رہے ، جب قوم کو حقوق نہیں ملیں گے تو ٹیکس کیسے لے سکتے ہیں؟۔

انہوں نے کہا کہ عوام امن اورمعاشی خوشحالی کا مطالبہ کرتے ہیں، ملک کے بیشتر علاقوں میں صورتحال فاقوں تک پہنچ چکی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم آپریشن عدم استحکام کی طرف جا رہے ہیں، عزم استحکام کے نام پر پتا نہیں کیا چیز شروع کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم 2010ء سے آپریشن کے نام پر مار کھا رہے ہیں،ہم نے آپریشن کئے اور لوگوں کو کہا کہ گھر بار چھوڑ دیں، سوات سے شمالی وزیرستان تک علاقہ کو خالی کرایا گیا، لوگوں نے اپنے ہی ملک میں ہجرت کی، چمن بارڈر پر 9ماہ سے لوگ دربدر بیٹھے ہوئے ہیں، انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کردیا گیا ہے، ان کی چادریں تار تار کردی گئیں اور روایات کو نقصان پہنچایاگیا، کیا کسی ملک میں سرحدی علاقوں کے لوگوں سے یہ سلوک کیا جاتا ہے، ان لوگوں کے پاس کوئی متبادل روزگار نہیں ہے، ماؤں بہنوں نے زیورات بیچ دیئے مگر یہ رقم بھی ختم ہوگئی، لوگ اب گھر کے برتن اور دروازے بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کیا ریاست کو اس بات کا احساس ہے؟۔

انہوں نے کہا کہ متاثرین کو مکان بنانے کیلئے چار لاکھ دیئے جارہے ہیں، چار لاکھ سے گھر تو کیا غسل خانہ بھی نہیں بن سکتا،آپ مذاق کررہے ہیں، ان کو چار لاکھ بھی نہیں دیئے گئے بلکہ ٹوکن دیئے گئے ہیں، ریاست نے ہمیں کہاں کھڑا کردیا ہے، کیا بطور شہری ہم ریاست پر کوئی حق نہیں رکھتے، ہم نے ان سے کہا تھا کہ یہ پنگا نہ لیں،پوچھا گیا پنگا کسے کہتے ہیں؟ میں نے کہا یہ لینے سے پتا چلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 25سے 30ہزار افغانی اپنے ملک گئے اور 40سے 50ہزار پاکستان واپس آگئے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ نے میرے سامنے کہا کہ باڑ لگا دی اب کوئی دہشت گرد نہیں آسکتا، اب کہا جا رہا ہے کہ باڑ اکھاڑ دی ہے،میں اور آپ پاک افغان بارڈر کہتے ہیں مگر افغانستان اسے ڈیورنڈ لائن سمجھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست شکی القلب ہوچکی ہے کہ اپنے باشندوں کو تحفظ تک نہیں دے رہی، شرائط لگائیں لیکن قابل برداشت ہوں، ملک کی وفاداری پر آپ قبضہ کرلیتے ہیں، کوئی اور بات کرے تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سفارتی لحاظ سے وزیر اعظم کامیاب ہوکر نہیں آئے، چین کے مہمان آئے انہوں نے جواب دیا پاکستان میں عدم استحکام ہے، سیکیورٹی حالات ٹھیک نہیں ہے، ایسے لگتا ہے کچھ مہینوں میں بنوں ،ڈی آئی خان میں امارت اسلامیہ قائم ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے اس آپریشن کے ذریعے چین کی بات پوری کی جارہی ہے، یہ آپریشن عزم استحکام نہیں عدم استحکام ہے، اس آپریشن پر اسٹیبلیشمنٹ کا موقف بھی واضح نہیں ہے، پارلیمان اپنا مقدمہ ہار چکی ہے، اسٹیبلشمنٹ الیکشن میں دھاندلی کرے گی تو ایسا ہی ہوگا، اسٹیبلشمنٹ سیاست سے باہر ہوجائے تو خیر ہوجائے گی۔

+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں