اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی ارشد شریف قتل کیس میں وزارت داخلہ و وزارت قانون کے مجاز افسران کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں آج نہیں تو10 سال بعد ارشد شریف قتل کی تحقیقات ہونی ہی ہیں،شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش کی جارہی ہے، جوڈیشل کمیشن کا مقصد کیا چالان جمع کرانا ہوتا ہے؟۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق نے صحافی ارشد شریف کے قتل پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت کی۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ حکومت کا کمیشن تشکیل بارے کیا موقف ہے؟ یہاں کا جو معاملہ ہے اس سے متعلق کیا کمیشن بن سکتا ہے؟ ،کمیشن وفاقی حکومت نے بنانا ہے ؟اس متعلق بتائیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے کمیشن کا معاملہ بھی تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس بارے کیا قباحت ہے؟ اس کی تحقیقات تو ہونی چاہئے، آج نہیں تو 10سال بعد تحقیقات ہونی تو ہیں۔پولیس حکام نے کہا کہ یہاں پیچیدگی آئے گی، مرکزی ملزم جب کینیا میں ہے تو اس کے بغیر کارروائی کیسے آگے بڑھ سکتی ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی، ایس جے آئی ٹی کے مطابق ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کیونکہ اس کے ثبوت کینیا میں ہیں، جوڈیشل کمیشن کا مقصد کیا ہوتا ہے، کیا اس نے چالان جمع کرانا ہوتا ہے؟ ،جوڈیشل کمیشن نے انکوائری کرنا ہوتی ہے اور اس کی رپورٹ پبلش ہونی چاہئے۔
چیف جسٹس نے آئی جی کے وکیل سے کہا کہ آپ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک پاکستانی شہری کینیا کی پولیس کے ہاتھوں کیوں مارا جائے گا؟۔ بعد ازاں عدالت نے وزارتِ داخلہ اور وزارتِ قانون کے مجاز افسر ان کو 6اگست کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
