اسلام آباد : وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ سی پیک فیز ٹو ، چینی ماہرین کو سیکیورٹی فراہمی ، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دینے کیلئے اقدامات جاری ہیں، ایف بی آر تاجر دوست سکیم کا حصہ نہ بننے والے دکانداروں کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی،کوشش ہے آئی ایم ایف کا اگلا پروگرام آخری ہو،صوبوں کیساتھ مل کر ملکی مجموعی مالی وسائل میں اضافے کے خواہشمند ہیں، مہنگائی میں مزید کمی لانا ، صنعتوں کو سہولیات فراہمی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے، مسلح افواج کو وسائل فراہمی میں کسی رکاوٹ کو آڑے نہیں آنے دیں گے، پاکستان کو کھویا مقام واپس دلوانے کیلئے سب کو تعاون جاری رکھنا ہوگا ۔
تفصیلات کے مطابق منگل کوقومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ وفاقی بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ نے بجٹ بحث کے دوران مثبت تجاویز دیں جس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن اور پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کو تیز کیا جا رہا ہے، حکومت نے بجٹ نکات پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے جس میں زراعت، تعلیم، اور صحت حکومتی ترجیحات میں شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ زراعت تعلیم اور صحت کے شعبے حکومت کیلئے اہم ہیں، خیراتی ہسپتال کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ پر غور کررہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ جو دکاندار ایف بی آر کی تاجر دوست سکیم کا حصہ نہیں بنتے ان کے خلاف سخت کاروائی ہوگی، پنشن اصلاحات کے ذریعے بچت کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ سی پیک فیز ٹو کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، اس سلسلے میں حکومت چینی ماہرین کو سکیورٹی فراہم کرنے کیلئے اقدامات کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام کیلئے پیشرفت کررہی ہے ،کوشش ہے کہ اگلا پروگرام پاکستان کیلئے آخری پروگرام ہو۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ کا مقصد مالی خسارے کو کم کرنا ہے، بجٹ میں ان تجاویز کو اہمیت دی گئی ہے جس کے تحت حکومت وسائل میں اضافہ اور غیر ضروری اخراجات میں کمی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں وفاقی حکومت کے حجم ،وسائل کے ضیاع کو کم کرنے کے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں گے، وزیراعظم کی ہدایت پر رواں مالی سال کی طرح اگلے مالی سال میں بھی سرکاری اداروں میں سادگی اور کفایت شعاری کی پالیسی جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر مالی استحکام کی کوششیں جاری رکھے گی، حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر ملک کے مجموعی مالی وسائل میں اضافے کی خواہش مند ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وفاقی اخراجات کی شیئرنگ پر بات چیت جاری ہے، وفاقی حکومت کے بجٹ میں توازن کیلئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومتیں قومی نوعیت کے اخراجات میں اپنا حصہ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام وزرائے اعلی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس معاملے میں بات چیت کو آگے بڑھایا۔انہوں نے کہا کہ مسلح افواج ہر وقت قوم و ملکی حفاظت و دفاع کیلئے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہیں، ہمیں اپنی افواج کی کارکردگی اور قربانیوں پر فخر ہے، نیشنل سکیورٹی اہم ترین ترجیح ہے، تمام تر مالی مشکلات کے باوجود حکومت ملکی دفاع کیلئے تمام ضروری وسائل کی فراہمی یقینی بناتے ہوئے اس میں کسی بھی رکاوٹ کو آڑے نہیں آنے دے گی۔
انہوں نے کہا کہ مسلح افواج کو ضروری وسائل فراہم کئے جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ ارکان سینیٹ و قومی اسمبلی نے سرمایہ کاری کے فروغ کے اقدامات پر زور دیا ہے جس کیلئے حکومت ٹھوس اقدامات کررہی ہے ،اس میں سرفہرست سی پیک فیز ٹو پر عمل درآمد کروانا ہے، حکومت چینی ماہرین کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کیلئے ہرممکن اقدامات کررہی ہے، حکومت جامع منصوبے کے ذریعے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ سازشی عناصر کا قلعہ قمع کیا جا سکے جو پاک چین تعلقات کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور ایس آئی ایف سی کی بدولت سعودی عرب، امارات اور دیگر دوست ممالک کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے مثبت پیشرفت سامنے آ رہی ہے ،مستقبل قریب میں اس بارے اچھی خبریں سامنے آئیں گی۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی میں مزید کمی لانا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، حکومت نے پہلے ہی کئی اقدامات کئے ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی کم اور افرط زر 38سے کم ہوکر 11.8 تک آ چکی ہے، حکومت اپنی کوششیں جاری رکھے گی تاکہ مہنگائی کم سے کم ہو اور عوام کو اس کا فائدہ حاصل ہو۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ارکان نے صنعتی شعبے کو سہولیات فراہمی پر بھی زور دیا ہے اس سلسلے میں وزیراعظم نے صنعتوں کیلئے بجلی کے ٹیرف میں کمی کا اعلان کیا ہے، پالیسی ریٹ اور بجلی کی قیمت میں کمی سے صنعتی شعبے کو مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ مالی سال 2024-25ء کے بجٹ میں جاری منصوبوں کی تکمیل کو ترجیح دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ 81فیصد وسائل ایسے ہی منصوبوں کیلئے مختص کیے گئے ہیں تاکہ معیشت کو بروقت فائدہ حاصل ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی ترجیحات میں سے ایک پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بھی ہے، جسے فروغ دینے کے اقدامات کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ 1500ارب میں سے 350 ارب پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں ایک بار پھر دہرانا چاہوں گا کہ حکومت معاشی و اقتصادی بحالی میں قومی اتفاق رائے کو نہایت اہمیت دیتی ہے، اس کیلئے ہم سب کو ہرممکن تعاون جاری رکھنا ہوگا تاکہ پاکستان کو اس کا کھویا ہوا مقام ایک بار پھر واپس دلوا سکیں۔ تقریر کے آخر میں وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی ملازمین کیلئے تین تنخواہوں کے برابر اعزازیہ دینے کا اعلان کیا۔