راولپنڈی: بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 9مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیج چرانے والوں کو سانحے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی بالادستی ،حقیقی آزادی کا مطالبہ کرنا غداری نہیں ،مخصوص ایجنڈے کے تحت میرے خلاف عوام کو جی ایچ کیو پر احتجاج کیلئے اکسانے کا بیانیہ بنایا گیا ،پی ٹی آئی سیاسی، آئینی و قانونی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے،کارکنان کی سیاسی تربیت میں تشدد کا عنصر شامل نہیں،70ء کی دہائی میں جینے والے چند افراد سوشل میڈیا کے کام کے طریقہ کار سے نابلد ہیں، 90فیصد عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیااکثریت کو ڈیجیٹل دہشت گرد کہنے کے خطرناک نتائج نکلیں گے ،قوم حقیقی آزادی کے حصول ،ظالمانہ و فسطائی نظام کے خلاف اسلام آباد جلسے میں بھرپور شرکت کرے۔
تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر جاری بیان میں بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ میڈیا پر مخصوص ایجنڈے کے تحت بیانیہ بنایا گیا کہ میں نے عوام کو جی ایچ کیو جا کر احتجاج پر اکسایا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی تقریبا 3دہائی پر محیط تاریخ میں پرتشدد احتجاج کی کوئی مثال نہیں ملتی، گزشتہ ڈھائی سال کے دوران پی ٹی آئی کیخلاف بدترین ہتھکنڈے استعمال کر کے تشدد پر اکسایا گیا، نومبر 2022ء میں مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور میری مرضی کی ایف آئی آر کاٹنے سے بھی انکار کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد 2بارمیری رہائش گاہ پر عسکری ادارے نے حملہ کیا، ایک بار میری پیشی کے موقع پر مجھے قتل کرنے کا باقاعدہ منصوبہ بنا کر سادہ لباس میں لوگوں کو چھوڑا گیا، صرف یہی نہیں 9مئی کو عوام کو انتشار دلانے کیلئے ایک سابق وزیر اعظم اور پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت کے سربراہ کو جس ہتک آمیز انداز میں اغوا کیا گیا، وہ بھی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف سیاسی، آئینی و قانونی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے،کارکنان کی سیاسی تربیت میں تشدد کا کوئی عنصر شامل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ 9مئی فالس فلیگ آپریشن تھا جس نے 9مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیج چرائی وہی 9مئی کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کی عقل کا عالم یہ ہے کہ یہ 9مئی کو امریکا کے کیپٹل ہل احتجاج سے تشبیہ دیتے ہیں حالانکہ وہاں باقاعدہ شفاف تفتیش اور سی سی ٹی وی کے باریک بینی سے جائزے کے بعد صرف ملوث افراد کو سزا دی گئی، پوری سیاسی پارٹی ریپبلکن کو کچھ نہیں کہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پوری پاکستانی قوم کو دہشتگرد کہہ کر قوم کو متنفر کیا جا رہا ہے۔ 70ء کی دہائی میں جینے والے چند افراد جو اس امر سے یکسر نابلد ہیں کہ سوشل میڈیا کام کیسے کرتا ہے وہ ڈیجیٹل دہشتگردی کے لقب بانٹ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی90 فیصد آبادی پی ٹی آئی کیساتھ کھڑی ہے،90فیصد عوام نے 8فروری کو پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ دیا تھا، ان سب کو اگر ڈیجیٹل دہشتگرد کہا جائے گا تو فوج اور عوام کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوگی ،یہ نفرت پیدا نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی لوگ یہ کررہے ہیں ان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، 1971ء میں بھی یہی کچھ ہوا تھا، 25مارچ 1971ء کو جب ڈھاکہ کے اندر یحییٰ خان نے لوگوں کی بڑی تعداد کیخلاف آپریشن کیا تھا تو اس کے نتائج ملک کیلئے اچھے نہیں نکلے،اب بھی اگر پاکستان کی اکثریت آبادی کو دہشتگرد کہا جائے تو ملک کیلئے خطرناک نتائج نکلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملک، حکومتیں اور معاشرے اخلاقیات کی بنیاد پر بنتے ہیں جس معاشرے میں اخلاقیات ختم ہوجائیں باقی کچھ نہیں رہتا۔ انہوں نے کہا کہ آج لوگ اگر آپ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو وہ صرف آئین کی بالادستی کی بات کررہے ہیں، آئین کی بالادستی اور حقیقی آزادی کا مطالبہ کرنا کوئی غداری نہیں ہے یہ جو مضحکہ خیز کیسز بنائے جارہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لوگ بالکل پر امن طریقے سے کام کررہے تھے اور جب آپ ان کو پر امن طریقے سے کنٹرول نہیں کر سکے تو پھر آپ نے ان کے خلاف فسطائیت کے حربے استعمال کرنا شروع کردیئے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلی علی امین گنڈا پور کو ہدایات دی ہیں کہ وہ اسلام آباد میں جلسے کی قیادت کریں، پوری قوم حقیقی آزادی کے حصول کیلئے اور ملک میں رائج ظالمانہ اور فسطائی نظام کے خلاف اس جلسے میں بھرپور شرکت کی تیاری کریں۔