راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ عزم استحکام فوجی آپریشن نہیں دہشت گردی کیخلاف مربوط مہم ہے،سیاسی مافیا متنازع بنانا چاہتا ہے، عدالتی نظام 9مئی منصوبہ ساز وںکو ڈھیل دے رہا ہے، کیفرکردار تک نہ پہنچانے تک انتشار مزید پھیلے گا،ڈیجیٹل دہشتگرد فیک نیوز کے ذریعے اضطراب پھیلا کے اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں،بنوں واقعہ میں امن وامان کا قیام فوج نہیں صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے،سیاسی جماعت اپنی ہی صوبائی حکومت کیخلاف کس بات کا احتجاج کر رہی ہے؟، روزانہ کی بنیاد پر112 آپریشنز کئے جارہے ہیں، رواں سال 22409انٹیلی جنس آپریشنز میں 31انتہائی مطلوب دہشت گردوں سمیت 398دہشتگر ہلاک کئے،137افسر و جوانوں شہید ہوئے۔۔تفصیلات کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد بعض اہم امور پر افواج کا موقف واضح کرنا ہے، حالیہ کچھ عرصے میں مسلح افواج کیخلاف منظم پروپیگنڈا، جھوٹ، غلط معلومات کا پھیلاؤاور منسوب من گھڑت خبروں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کاؤنٹر ٹیررارزم کی مد میں رواں سال سیکیورٹی فورسز نے مجموعی طور پر اب تک 22ہزار 409 انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کئے ہیں ، اس دوران 398دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیاجبکہ دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنے کیلئے روزانہ 112سے زائد آپریشن افواج پاکستان، پولیس، انٹلیجنس ایجنسی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں، اس کے دوران انتہائی مطلوب 31دہشتگردوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، رواں سال 137افسر اور جوانوں نے ان آپریشنز میں جام شہادت نوش کیا، پوری قوم ملکی امن وسلامتی پر جانیں قربان کرنیوالے بہادروں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بڑھتے جھوٹ اور پراپیگنڈے کے دوران یہ ضروری ہے کہ ایسی پریس کانفرنس باقاعدگی سے منعقد کی جائے تاکہ نا صرف کسی بھی صورتحال پر موقف کی وضاحت ہوسکے بلکہ جان بوجھ کر پھیلائی گئی افواہوں اور جھوٹ کا بر وقت سدباب کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے اس وقت بہت کنفیوژن پائی جاتی ہے کہ عزم استحکام اصل میں ہے کیا ؟، ہمارا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ ہم انتہائی سنجیدہ مسائل کو بھی ہم سیاست کی نظر کردیتے ہیں، عزم استحکام اس کی ایک مثال ہے، میں کہوں گا کہ عزم استحکام ایک ہمہ گیر اور مربوط کاؤنٹر ٹیررازم مہم ہے، یہ ملٹری آپریشن نہیں ، عزم استحکام کے اوپر وزیراعظم کی زیر صدارت22جون کو نیشنل ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزیر دفاع، نائب وزیر، وزیر انفارمیشن ،متعلقہ وزراء ، تمام صوبوں کے وزرائے اعلی، چیف سیکرٹریز، آرمی چیف سمیت متعلقہ سروسز چیف ومتعلقہ افسران موجود تھے، اجلاس کے بعد جاری اعلامئے کے بعد کنفیوژن شروع ہوگئی۔
اعلامئے میں بتایا گیا کہ ایپکس کمیٹی کے فورم نے کاؤنٹر ٹیررازم مہم پر تفصیلی جائزہ لیا اور نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومینز کو دیکھا اور اس کے نفاذ میں خامیوں کی نشاندہی کی اور اس بات پر زور دیا کہ ایک تفصیلی کاؤنٹر ٹیررازم اسٹریٹیجی کی ضرورت ہے، اس کے بعد وزیر اعظم نے ایک مزید متحرک کاؤنٹر ٹیررازم مہم کی منظوری دی، یہ ایک مہم ہے، اس مہم کو ہم آپریشن عزم استحکام سے لانچ کریں گے اس میں اتفاق رائے ہوگا، اس میں کوشش کی جائے گی کہ جو کوششیں چل رہی ہیں اس کو موثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار بنایا جائے گا، ایک قومی سطح پر بیانیہ بنایا جائے گا،فورم نے اعادہ کیا کہ دہشتگردی کے خلاف کارروائی پاکستان کی جنگ ہے اور یہ ہماری سالمیت کیلئے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ فورم نے کہا کہ کسی کو بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس میں کون سے آپریشن کی بات ہورہی ہے؟ ، اس اعلامئے میں یہی ہے تاہم اس کے بعد ایک بیانیہ بنایا گیا کہ آپریشن ہورہا ہے، لوگوں کو بے دخل کیا جارہا ہے ،ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں، جب یہ بیانیہ بنا تو صرف دو دن بعد 24جون کو وزیر اعظم آفس ایک اور اعلامیہ جاری کرتا ہے جس میں کہا گیا عزم استحکام کو غلط سمجھا جارہا اور اس کا راہ نجات، ضرب عضب سے غلط موازنہ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے نو گو ایریاز تھے جہاں ریاست کی رٹ نہیں تھی تو اس لئے اسے ختم کرنے کیلئے آپریشن کیا گیا، اس وقت نو گو ایریاز نہیں ہیں، اس لئے بڑے پیمانے پر کوئی ملٹری آپریشن نہیں ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عزم استحکام پاکستان میں استحکام قائم کرنے کیلئے ملٹی ڈومین، ملٹی ایجنسی، ہول آف دی سسٹم، نیشنل وژن ہے ،یہ نیشنل ایکشن پلان کو دوبارہ متحرک کرے گا اس کے علاوہ کچھ نہیں، اس کا مقصد دہشتگردوں اور کریمنل کے نیکسس کو توڑنا ہے، یہ دو تحریری دستاویزات ہیں لیکن پھر بھی عزم استحکام کو متنازع بنایا جارہا ہے، ایک بہت مضبوط لابی ہے جو چاہتی ہے کہ یہ مقاصد پورے نہ ہوں،سیاسی مافیا اسے متنازع بنا رہا ہے، وہ یہ کیوں چاہتے ہیں تو اس کیلئے ریوائزڈ ایکشن پلان دیکھیں۔انہوں نے کہا کہ 2014ء میں جب اے پی ایس کا واقعہ ہوا تو تمام سٹیک ہولڈرز بیٹھے اور 21نکات کانیشنل ایکشن پلان بنایا اس کے اثرات بھی سب نے دیکھے، آخری حکومت میں وزیر اعظم نے ایپکس کمیٹی میں 14نکات والا ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان منظور کیا، اس میں بھی سیاسی اتفاق رائے تھا، کیوں ایک بہت بڑا سیاسی اور غیر قانونی مافیا کھڑا ہوگیا کہ ہم نے یہ کام نہیں ہونے دینا؟ اس کی پہلی چال یہ ہے کہ اس کو متنازع بنادیں وہ ان کے اندر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان 14نکات کو دیکھیں تو اس میں جو کائنیٹکس سے متعلق پوائنٹ ہے وہ بہترین طریقے سے ہورہا ہے، جو فوج کی ذمہ داری ہے وہ ہورہی ہے ،مسئلہ دیگر نکات میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2014ء اور 2021ء میں بھی یہ ضروری سمجھا گیا کہ انسداد دہشتگردی کے محکمے بنائے جائیں، نیکٹا ہر سال ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان کی اپ ڈیٹ نکالتی ہے، اس اپ ڈیٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی کی اسٹرینتھ 2437ہے ،537 فیلد آپریٹرز ہیں ، وہاں دیکھیں دہشتگردی کتنی ہے، بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی تعداد 3438ہے اور اس میں آپریشنل فیلڈ آپریٹرز 2776ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس میں بات کی گئی کہ مدارس کو ریگولیٹ اور رجسٹر کیا جائے، پاکستان میںتقریبا 32ہزار سے زائد مدارس ہیں ، اس میں صرف16ہزار ہی رجسٹر ہیں ،50فیصد مدارس کا تو پتا ہی نہیں کون چلا رہا ہے؟ کیا یہ کام فوج نے کرنا ہے؟ ، دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے انسداد دہشت گردی عدالتیں قائم کی گئی ، اس وقت نیکٹا کے مطابق اے ٹی سی کورٹس خیبرپختونخوا میں 13 اور بلوچستان میں 9ہیں، دہشت گردی اتنی زیادہ ہے کہ ہم رواں سال میں 22ہزار 400سے زائد آپریشن کر چکے لیکن پچھلے پورے سال میں بلوچستان میں صرف 10 کنوکشنز ہوئی ہیں اور خیبر پختونخوا میں 14، ہم 2014 سے کہہ رہے کہ ہم نے کریمنل جسٹس سسٹم کو مضبوط بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیرر کرائم نیکسس میں دہشتگردی پنپتی ہے ، سب نے فیصلہ کیا کہ سپیکٹرم روکنا ہے، یہ غیر قانونی سپیکٹرم ہر جگہ موجود ہے ،اس میں غیر قانونی معیشت چھپی ہے اور اسی سے دہشتگردی پنپتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر نان کسٹم پیڈ گاڑیاں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں یا نہیں؟ یہ اس غیرقانونی سپیکٹرم کا پارٹ ہے نا؟ اس میں اربوں کا بزنس ہو رہا ہے نا؟ انہی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے اندر دہشت گرد بھی آپریٹ کرتے ہیں، جب ایک ملک میں، کچھ اضلاع میں، کچھ جگہوں میں یہ نارمل ہو کہ بغیر کاغذ کے گاڑی چل سکتی ہے،اس کا کوئی پتا نہیں کہ آگے نمبر کیا لگا ہے، اس کے درمیان میں دہشت گرد بھی آپریٹ کرتے ہیں، بے نامی پراپرٹیز، بے نامی اکاؤنٹس کیا یہ اس غیرقانونی اسپیکٹرم کا حصہ نہیں ہیں؟ ،اگر آپ اس کو برداشت کریں گے تو اس کے اندر دہشت گرد بھی آپریٹ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے 6ممالک کیساتھ بارڈر لگتے ہیں، پاکستان کے علاوہ تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، چین، ایران کے ساتھ بھی اس کی سرحد ہے، افغانستان میں ترک، تاجک، ازبک بھی رہتے ہیں، لیکن باقی ممالک میں تو وہ پاسپورٹ کے ساتھ جاتے ہیں، نارمل سرحد ہے، ویزہ سسٹم ہے، تو پھر ہماری سرحد پر کیوں تذکرے یا شناختی کارڈ دکھا کر اندر چلے جائیں؟، اس کو ایک سافٹ بارڈر رکھاہوا ہے، کیونکہ وہ غیرقانونی اسپیکٹرم کو فیسیلٹیٹ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2023میں ایل سیز کو کم کیا کیونکہ ڈالرز کی قلت تھی، سب نے دیکھا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایک دمم سے اربوں ڈالر کے لحاظ سے بڑھ گیا، کیونکہ وہاں جو سامان جاتا ہے، وہ آپ کی مارکیٹوں میں بکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے تیل کی سمگلنگ سے بنائے جاتے ہیں، 50سے 60فیصد غیر قانونی سگریٹ بکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ستمبر سے اب تک ہم ایک ہزار ٹن سے زائد غیر قانونی منشیات پکڑ چکے ہیں، لیکن کتنی زیادہ مقدار افغانستان سے آرہی ہے، اس میں بھی اربوں روپیہ ہے، تو یہ جو غیرقانونی اسپیکٹرم ہے، اس کی ایک ریکوائرمنٹ ہے، جو سافٹ اسٹیٹ ہے اس کا حل یہ نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان ہے، یہ نہ صرف دہشتگردی کا جواب ہے بلکہ پوری ریاست اور سوسائٹی کو اوپر اٹھاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ غیرقانونی اسپیکٹرم کو کم کریں گے، تو کیا پھر معیشت بہتر نہیں ہوگی؟ یہ صرف دہشت گردی کا علاج تو نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات ہیں جو اس پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتے ،وہ بہت سارا پیسہ بنا رہے ہیں،اگر اس پیسے کا کچھ حصہ وہ اس سافٹ اسٹیٹ کی پائیداری کیلئے لگادیں تو یہ برا کاروبار تو نہیں ۔
انہوں نے کہا کہ عزم استحکام ایک مہم ہے ، یہ نہ صرف دہشتگردی کیلئے بلکہ یہ پورے ملک کیلئے مفید ہے ،اس کے اسٹیکس بہت ہائی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی چمن میں حکومت نے کہا کہ ہم اس پر ون ڈاکومنٹ رجیم لگائیں گے، تو وہاں پر ذاتی مفادات ہیں، چاہے وہ سیاسی ہیں یا غیر سیاسی، انہوں نے وہاں پر احتجاج شروع کر دیا، سب آپ کے سامنے ہے، ایف سی والوں کو پتھر مارے گئے ،لوگوں کو بٹھا نے انسانی حقوق تنظیمیں آگئیں ور ایک ہی مطالبہ ہے ہمیں سمگلنگ کرنی ہے ،نیچے ملوث لوگوں کوتھوڑا بہت پیسہ ملتا ہے،مگر اوپر مافیا کو اربوں کی رقم جاتی ہے ،وہ لوگ یہاں پیسہ نہیں رکھتے بلکہ ڈالروں میں باہر لے جاتے ہیں، اس سے معیشت کو اور نقصان ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عزم استحکام میں جب کہا گیا کہ ہم نے ٹیرر کرائم نیکسس کو توڑنا ہے، تو وہ مافیا بہت پریشان ہوااور اس کو متنازع بنانا شروع کردیا ۔انہوں نے بتایا کہ15جولائی کو صبح کے وقت دہشتگردوں نے بنوں کینٹ پر حملہ کیا، ہماری فوج نے بھرپور جواب دیا اور ہمارے 8جوان شہید ہوئے، ہمارے جوانوں نے ہمت کے ساتھ دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا، سپاہی سبحان جان بوجھ کر گرینیڈ کے اوپر گرگیا تاکہ کولیٹریل ڈیمیج نہ ہو یہ ہمارے سپاہیوں کی بہادری ہے ، دہشتگردوں نے وہاں اندھا دھند فائرنگ جس سے معصوم شہری بھی شہید ہوا، اگلے دن بنوں کے تاجروں نے کہا کہ ہم نے امن مارچ کرنا ہے اور جب یہ مارچ ہوا تو کچھ مخصوص منفی عوامل شامل ہوگئے اور جب وہ بلاسٹ ہونے والی روڈ سے گزرے تو انہوں نے ریاست مخالف نعرے لگائے، پتھرا ؤکیا، اس میں مسلح لوگ بھی شامل تھے، انہوں نے فائرنگ کی اور ایک عارضی دیوار کو گرایا اور سپلائی ڈیپو کو بھی لوٹا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح کہا جارہا ہے کہ نہتے لوگوں پر فائر ہوا تو کیا وہ لوگ آٹا، گھی چوری کر رہے ہوتے ،مارچ کے مرکزی مقام پر بھی مسلح لوگ شامل ہوئے ،وہاں بھی فائرنگ سے جانی نقصان ہوا ، فوج نے ایس او پی کے تحت ہی کارروائی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب 9مئی واقعہ ہوا تو ایک مخصوس گروہ، ایک انتشاری ٹولے نے یہ بات کی کہ فوج نے ان کو روکا کیوں نہیں، ان کو گولی ماردیتے، کیونکہ انہوں نے ان کو گولی نہیں ماری اس کا مطلب یہ خود ان کو لے کر آئے، یہ بیانیہ ہر طرف چلایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں بتاتا چلوں کہ فوج کا سسٹم بہت واضح ہے اور اس کے مطابق کام ہوتا ہے، اگر فوجی تنصیبات پر کوئی حملہ کرتا ہے تو پہلے تنبیہ دی جاتی ہے، اگر پھر بھی کوئی آتا ہے تو ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے ،پھر آگے کی کارروائی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ اس لئے ہوا کیونکہ آپ کا عدالتی نظام 9مئی منصوبہ ساز وںکو ڈھیل دے رہا ہے، ان کو کیفر کرداد تک نہیں پہنچایا جائے گا تو ملک میں انتشار، فسطائیت مزید پھیلے گی۔ انہوں نے کہا کہ ان دہشت گردوں کے ساتھ ڈیجیٹل دہشتگرد تھے اور واقعے کے بعد پرانی تصویریں نکال کر پروپیگنڈہ کیا گیا حالانکہ امن امان فوج کی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے، ایک مجموعے میں شرپسند عناصر گھستے ہیں اور لوگوں کو مارتے ہیں سمجھ نہیں آتا کہ سیاسی جماعت اپنی ہی صوبائی حکومت کے خلاف کس بات کا احتجاج کر رہی ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ بنوں واقعے پر عوام کا پرامن احتجاج بالکل ہونا چاہئے، دہشت گردوں کیخلاف مارچ کریں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے مسئلے پر حکومت نے ہمیشہ آواز اٹھائی، حکومت اور ادارے نے مسئلے کی حساسیت کے تحت بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی مگر پروپیگنڈا کیا گیا کہ انہیں فوج لیکر آئی، کیا کل جماعت اسلامی آکر بیٹھ جائے یا کوئی اور احتجاج کرے تو کہا جائے گا کہ ان کو فوج نے لاکر بٹھایا ہے؟ ۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر فوج اور قیادت کیخلاف باتیں کی جارہی ہے اس کے دو حصے ہیں ،یہ کیا ہورہااور کیوں ہو رہا ہے؟ یہ ڈیجیٹل دہشتگردی ہے جس طرح دہشتگرد بم پکرتا ہے تو ڈیجیٹل دہشتگرد جھوٹ، فیک نیوز کے ذریعے اضطراب پھیلا کے اپنی مرضی مسلط کرتا ہے، یہ بے نامی اکاؤنٹس ہوتے ہیں جن کے تانے بانے کہاں مل رہے ہیں؟کچھ نہیں پتا چلتا ،لیکن دونوں کا ہدف صرف فوج ہے، خارجی دہشتگرد اور ڈیجیٹل دہشتگرد فوج کو نشانہ بنا رے ہیں، دونوں کا کام ایک جیسا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خارجی دہشتگردوں کو آپریشن کے ذریعے نیوٹرلائز کیا جاتا ہے جبکہ ڈیجیٹل دہشتگرد کو قانون کے ذریعے روکا جاتا ہے، ہمارے ملک میں فوج کے خلاف بیہودہ بات چیت کی گئی، اس سال فیک نیوز پر کتنی کارروائیاں ہوئیں؟ بجائے اس کے کہ ان کیخلاف قانون آگے بڑھتا ان کو اسپیس دی گئی ، آزادی رائے کے نام پر ان کو ہیرو بنادیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں بہت بڑا حملہ ہواجو سب کے سامنے ہے، ایک طرف ہمارا خارجی ٹولہ افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہے ،دوسری طرف بھارت موقع کی طاق میں ہے کہ کب پاک فوج کمزور ہو تو ہم اپنا کام کریں اگر یہ ہو تا رہا اور ہم نے ریگولیشن کے تحت اس پر کام نہیں کیا تو اسے مزید اسپیس ملے گی۔انہوں نے کہا کہ اس وقت نیپ کی ضرورت ہے، ہم ملک میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دے سکتے۔