ترکیہ کےدارالحکومت انقرہ کے ایک دور دراز ضلع نالیہان میں کاریگر کئی برسوں سے پیچیدہ ریشمی ’ لیس ‘ یا فیتہ نما دستکاری تیار کرتے آرہےہیں اور یہ روایت آج بھی زندہ ہے۔
اس علاقے میں کاریگر سجاوٹ کے مقاصد کے لئے سوئی کےکام سے بنے فیتے اور زیورات تیار کرتے ہیں۔ یہ دستکاری قدیم تجارتی راستے سلک روڈ سےجڑی ہوئی ہے۔یہ چھوٹا شہر مشرق بعید اور یورپ کے درمیان پرانے تجارتی راستے پر واقع ہے اور یہاں ’ لیس ‘ یافیتہ نما دستکاری بنانا اور اس کا استعمال عام ہے۔
پہلے وقتوں میں قافلوں کے آرام کرنےکے لئے استعمال ہونے والا ایک بحال شدہ عثمانی کارواں سرا (سرائے) کوچھان میں 58 سالہ زہرا آکین اپنی دکان میں مصروف ہیں۔یہ خاتون زیادہ تر ایسے آردڑز تیار کر رہی ہیں جو غیر ملکی گاہکوں کے لئے بھیجے جائیں گے۔
ساؤنڈ بائٹ1(ترکش): زہرا آکین، سوئی فیتے بنانے کی کاریگر
’’ہم اپنی تخلیقی تحریک قدرت، پھولوں اور جانوروں سے حاصل کرتے ہیں۔‘‘
نالیہان کے سوئی فیتے میں نباتاتی ڈیزائن جیسے پھل،پتے اور پھول شامل ہوتےہیں۔
آکین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تتلیاں اور ایسے نمونےجیسے کہ ٹوکریاں، بیگ اور جیومیٹرک یہ سب کاریگر کی تخلیقی صلاحیت سے بنائےگئے ہیں۔
آکین دہائیوں سے سوئی سے ’ لیس ‘ فیتہ نما دستکاری کر رہی ہیں اور انہیں یہ فن ان کی دادی نے بچپن میں سکھایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سوئی فیتے کا یہ کام ایک محنت اور وقت طلب فن ہے۔
ریشم سے بنائے گئے فیتہ نما ’لیسیں‘ روایتی طور پرعوامی لباس کے کناروں اور دسترخوان کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اسے 20 سال قبل آکین اور دیگر مقامی خواتین نےسہہ جہتی ہاتھ سے بنے کام شروع کرنے کے بعد دوبارہ ایجاد کیا تھا۔
نالیہان کی فیتہ نما ’لیس‘ کا ہر ٹکڑا باریک بینی کے ساتھ ہاتھ سے تیار کیا جاتا ہے جو کاریگروں کی لگن اور مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔
اس دستکاری کی ایک اہم خصوصیت اس کا منفرد ’’دھاگہ مروڑنے‘‘ کا طریقہ ہے۔ اس عمل میں دستکاری کے دوران دھاگے کو مروڑا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک مضبوط اور دیرپا ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے۔مڑے ہوئے دھاگے فیتے کو ایک مضبوط سہہ جہتی شکل دیتے ہیں جس سے اس کی منفرد جمالیاتی خصوصیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ2(ترکش): زہرا آکین، سوئی فیتے بنانے کی کاریگر
مجھے معلوم ہے کہ اس فن کا آغاز چین سے ہوا تھا۔ ریشم وہاں سے آیا تھا۔ میں نے جب سوئی فیتے کا کام شروع کیا تو مجھے پتہ چلا کہ سلک روڈ کا اس فن میں کتنا اہم کردار تھا۔
سوئی فیتے کے پیدا کنندہ اور مقامی سیاحتی رہنما حسین ترطل نے کہا کہ علاقے میں ریشم کی کاشت میں دلچسپی بڑھنے کے ساتھ سوئی فیتہ اب شہر کے ثقافتی ورثے اور معیشت کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔
ساؤنڈبائٹ 3 (ترکش): حسین ترطل، مقامی سیاحتی رہنما
’’گزشتہ دہائیوں کے دوران مقامی حکام نے نالیہان میں ریشم کی پیداوار پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اس اقدام سے فیتے کی سوئی کے کام نے دوبارہ تیزی پکڑ لی ہے۔‘‘
انقرہ سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link