لندن: برطانیہ کی قومی پولیس چیفس کونسل نے کہا ہے کہ فسادات کے سلسلے میں 779 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے 349 پر فرد جرم عائد کیا گیا ہے۔
جولائی کے اواخر میں شمال مغربی انگلینڈ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں چاقو کے حملے کے بعد جس میں تین بچے ہلاک ہوئے تھے، برطانیہ میں انتہائی دائیں بازو کے مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جس کے نتیجے میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے ، دکانوں کو لوٹ لیا گیا اور پناہ گزینوں کی رہائش گاہوں پر دھاوا بولا گیا۔
فٹبال سیزن کے دوبارہ شروع ہونے اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دوبارہ فسادات کا خدشہ تھا تاہم گزشتہ روز انتہائی دائیں بازو کےمحدود پیمانے پرچند ہونیوالے احتجاج کے علاوہ پر امن رہا۔
لندن، نیو کاسل، مانچسٹر ،برمنگھم، بیلفاسٹ، گلاسگو اور ایڈنبرا جیسے شہروں سمیت ملک بھر میں احتجاج کے قومی دن کے موقع پر ہزاروں افراد نسل پرستی کے خلاف ریلیوں میں شریک ہوئے۔
لندن میں نسل پرستی کے خلاف سینکڑوں کارکن ریفارم یوکے کے دفتر کے باہر جمع ہوئے اور پارٹی کے رہنما نائجل فیراج کے خلاف احتجاج کیا جن پر امیگریشن مخالف جذبات بھڑکانے کا الزام ہے۔
بیلفاسٹ ٹیلی گراف کے مطابق بیلفاسٹ میں نسل پرستی کے خلاف ریلیوں میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد 15 ہزار تک پہنچ گئی۔
برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ یورپ میں تعطیلات گزارنے کا پروگرام منسوخ کر دیا ہے اور فسادات کو روکنے کی کوششوں کو مربوط کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے برطانیہ میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اب تک تقریبا 30 افراد کو بدنظمی یا آن لائن نسلی منافرت پھیلانے میں ملوث ہونے کے الزام میں جیل بھیجا جا چکا ہے، جن میں سب سے زیادہ سزا تین سال قید کی دی گئی ہے۔ اس تعداد میں اضافے کی توقع ہے کیونکہ برطانوی حکومت نے قانون توڑنے والوں سے قانون کی پوری طاقت سے نمٹنے کا عہد کر رکھا ہے۔