اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں بارے کیس پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ متناسب نمائندگی کے حساب سے تو سنی اتحاد کونسل کو زیرو نشست ملنی چاہئیں، ووٹ کے حق پر کوئی بات نہیں کررہا، عوام کا حق پامال ہونے دیں؟ ،ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے امیدوار دوسری جماعت میں کیوں بھیجنے پڑے؟،الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سامنے ریکارڈ دبانے کی کوشش کی، ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالاگیا، کیا ایسے عمل کو سپریم کورٹ کو نہیں دیکھنا چاہئے؟۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں بارے کیس پر سماعت کی ۔سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ثابت کروں گا الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری مکمل نہیں کی، الیکشن کمیشن نے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق بے ایمانی پر مبنی جواب جمع کروایا، 2018ء میں بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن انہیں تین مخصوص نشستیں ملیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق قانون پر مبنی تھا۔چیف جسٹس نے کہا یعنی 2018ء میں الیکشن کمیشن ٹھیک تھا؟ کیا آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ اس معاملے کا جوڈیشل نوٹس لے؟ اگر نہیں تو ذکر کیوں کررہے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات بارے کیس لیں تو لے لیتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ 2018ء انتخابات پر انحصار نہیں کرے گی۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی منافقت ظاہر ہے جے یو آئی (ف) کو بھی اقلیتوں کی مخصوص نشست دی ہوئی ہے ، میں جے یو آئی (ف) کا اقلیتوں بارے منشور دکھا دیتاہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سنی اتحاد کونسل میں صرف سنی شامل ہوسکتے ہیں؟،وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل میں تمام مسلمان شامل ہوسکتے ہیں۔فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دے دیں، آئین کے ٹیکسٹ میں ایسا نہیں لکھا ہوا، 2024ء میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں 30مخصوص نشستیں دی گئیں، قومی اسمبلی میں خیبرپختونخوا سے( ن) لیگ کو 2سیٹوں کے عوض 5مخصوص نشستیں ملیں، کیا 18جنرل سیٹیں جیتنے والی کو 30مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بار بار پی ٹی آئی کی طرف سے بات کرنے لگتے ہیں آپ سنی اتحاد کونسل پر رہیں، آپ کی لاجک کے مطابق متناسب نمائندگی کے حساب سے تو سنی اتحاد کونسل کو زیرو نشست ملنی چاہئیں، آپ کی تو عام انتخابات میں زیرو نشست تھی، آپ کوئی سیٹ نہیں جیتے، آپ تحریک انصاف کے کیس پر دلائل دے رہے ہیں ، آپ سب باتیں اپنے خلاف کررہے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا جنہیں آزادامیدوار کہہ رہے ہیں وہ آزادامیدوار نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم آپ کے دلائل مان لیں تو آپ کا کیس ہی نہیں، مخصوص نشستیں تو پی ٹی آئی کو مل جائیں گی۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحادکونسل کو ملیں گی جو پارلیمنٹ میں موجود ہے۔
اس پر جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ فیصل صدیقی آپ کی جماعت کو تو بونس مل گیا، آپ کی جماعت نے الیکشن نہیں لڑا اور 80 ، 90نشستیں مل گئیں۔اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ووٹ کے حق پر کوئی بات نہیں کررہا، عوام نے ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ووٹ دیا، انتخابات کو شفاف بنانا ضروری ہے، صورتحال کے مطابق ایک بڑی سیاسی جماعت کو ووٹ ملا جس کو انتخابی عمل سے نکال دیا گیا، بات سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ عوام کے ووٹ کے حق کی ہے، 2018ء میں بھی انتخابات اور الیکشن کمیشن پر سوالات اٹھے تھے، کیا خاموش رہیں؟ عوام کا حق پامال ہونے دیں؟ کیا الیکشن نارمل حالات میں اور شفاف ہوئے تھے؟ ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے امیدوار دوسری جماعت میں کیوں بھیجنے پڑے؟۔فیصل صدیقی نے کہا آزاد امیدواروں نے کیسے پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی، الیکشن کمیشن اسی وقت کہہ دیتا آپ سنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہو سکتے، الیکشن کمیشن کا مسلسل ایک ہی مو قف رہتا تو بات سمجھ آتی، آزاد امیدوار کی بھی مرضی شامل ہونی چاہئے، الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت کا ممبر ہے تو اسی سیاسی جماعت کا نشان اسے ملنا چاہئے، کسی سیاسی جماعت کو چھوڑے بغیر نئی جماعت میں شمولیت نہیں ہوسکتی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ یہ کیوں کہہ نہیں رہے آپ کو دوسرے نشانات لینے کیلئے مجبور کیا گیا، بلے کے نشان کا فیصلہ آنے سے قبل حامد رضا پی ٹی آئی کے نامزد تھے، کیا الیکشن نارمل حالات میں اور شفاف ہوئے تھے؟ ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے امیدوار دوسری جماعت میں کیوں بھیجنے پڑے، آپ یہ کیوں نہیں کہہ رہے آپ کو دوسرے نشانات کیلئے مجبور کیا گیا ، الیکشن کمیشن نے غلط تشریح کی جس سے تنازع پیدا ہوا۔
فیصل صدیقی نے کہا دیکھنا ہے آزاد امیدواروں نے کیسے پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی، آزاد امیدوار کی بھی مرضی شامل ہونی چاہئے، الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت کا ممبر ہے تو اسی سیاسی جماعت کا نشان اسے ملنا چاہئے۔جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا آپ غلطی پر ہیں کیونکہ کاغذات نامزدگی آپ نے جمع کروائے۔
آزاد امیدواروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ تحریک انصاف سے منسلک امیدواروں کو آزاد قرار دیاگیا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق ہمیں آزادامیدوار مانا جائے گا، آرٹیکل 51میں کہاں لکھا ہے کہ مخصوص نشستیں لینے کیلئے ایک سیٹ جیتنا ضروری ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیس بہت اہم ہے، سنجیدہ سوالات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری پر اٹھے ہیں، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سامنے ریکارڈ دبانے کی کوشش کی، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالا، کیا ایسے عمل کو سپریم کورٹ کو نہیں دیکھنا چاہئے؟۔تمام فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں بارے درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصلہ کب سنایا جائے گا اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔
