جمعرات, جنوری 16, 2025
انٹرنیشنل"دی بانانا ری پبلک" کے جوابی اقدامات: امریکی قبضے کے خلاف ہونڈوراس...

"دی بانانا ری پبلک” کے جوابی اقدامات: امریکی قبضے کے خلاف ہونڈوراس کی جدوجہد کی ایک تاریخ

ٹوگوشیگالپا: ہنڈوراس کے شہر لا لیما میں وطن واپس آنے والے تارکین وطن کے لیے استقبالیہ سہولت موجود ہے جہاں تقریباََ ہرروز اس مقام پر 100 سے زائد امریکہ سے ملک بدر کئے گئے ہونڈوراس کے باشندے آتے ہیں۔

غیر قانونی امیگریشن میں اضافہ رواں سال کے امریکی صدارتی انتخابات میں اہم موضوعات میں سے ایک ہے۔ امریکی سیاست دانوں نے ہنڈوراس اور وسطی امریکہ کے دیگر ممالک پر غیرقانونی انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔

تاہم جب تک ان ممالک میں انتہائی غربت کے مسائل حل نہیں ہوتے اس وقت تک امریکہ میں غیر قانونی امیگریشن کا مسئلہ حل کرنا بھی مشکل ہے ۔

اگر تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہنڈوراس جیسے ممالک میں دیرینہ غربت کا ذمہ دار امریکہ ہے۔  ہونڈوراس کو کبھی "بانانا ری پبلک ” کہا جاتا تھا جو بے لگام امریکہ کے لئے "نخلستان” اور ایک "پنجرے” کے طور پر کام کرتا تھا جہاں مقامی غریب مزدور کو جکڑ کر رکھا جاتا تھا۔

لورینزو بیکر نامی ایک امریکی کپتان 1870  میں جمیکا سے کیلوں سے لدا ایک بحری جہاز لیکر آیا اور اسے نیو جرسی میں فروخت کیا ۔ اس کے بعد سے کیلا امریکہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے پھلوں میں سے ایک رہا ہے۔ اس کے بعد بڑی تعداد میں تجارتی کمپنیاں بنی جو وسطی امریکہ اور کیریبین سے کیلا امریکہ پہنچایا کرتی تھی۔

کویامیل فروٹ کمپنی جیسی امریکی کارپوریشنوں نے 20 ویں صدی کے اوائل میں ہونڈوراس میں وسیع اراضی رعایتی نرخ پر حاصل کی۔

امریکہ نے 19 ویں صدی کے آخر سے 20 ویں صدی کے اوائل تک متعدد مسلح مداخلتوں اور بغاوتوں سے آہستہ آہستہ ہونڈوراس کے بڑے معاشی شعبوں پر کنٹرول حاصل کیا۔ کویا میل فروٹ کمپنی جیسی امریکی کمپنیوں نے ہونڈوراس کے شمالی حصے میں وسیع رقبے پر قبضہ کرلیا اور بڑے پیمانے پر کیلے کے باغات تعمیر کئے۔ انہوں نے نقل و حمل، بجلی اور پیداوار جیسے اہم اقتصادی شعبے بھی اپنے قابو میں کرلئے۔

ہونڈوراس کی 90 فیصد سے زیادہ بیرونی تجارت 1913 تک امریکی قبضے میں آچکی تھی۔ امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی اجارہ داری کے تحت ہونڈوراس نے کیلے کی پیداوار پر مرکوز ایک معاشی ڈھانچہ تشکیل دیا  اور خوراک جیسی ضروری اشیاء کے لئے درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کیا  جس کا نتیجہ ایک کمزور معیشت کی صورت مں نکلا۔

کویامیل فروٹ کمپنی کے اس وقت کے نائب صدر ایچ وی رولسٹن نے جولائی 1920 میں اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ہمیں اس ملک کی مشکلات میں اضافہ کرنے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے اس ملک کی نوزائیدہ معیشت کو توڑنا ہوگا جس کے لئے المناک، ہنگامہ خیز اور انقلابی زندگی کو طوالت دینا ہوگی۔

ایسٹیوان ایلویر کی عمر 91 برس ہے  ایک زمانے میں وہ شمالی ہونڈوراس کی سولا وادی میں کیلے کے باغات میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ امریکی کمپنیوں کا مکمل کنٹرول تھا۔ مزدورامریکیوں سے اپنی اجرت وصول کرتے تھے اور یہ رقم کمپنی کے زیر انتظام اسٹورز سے خریداری پر خرچ کردیتے تھے۔

ایلویر نے بتایا کہ کام کا ماحول انتہائی خراب تھا کارکنوں کو اکثر مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا اور کچھ کو قتل بھی کردیا جاتا تھا۔ کوئی بھی کچھ بھی نہیں کرسکتا کیونکہ اس وقت کا جمہوریہ کے صدر سے زیادہ بااختیار تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کا کبھی وسطی امریکی ممالک کی معاشی لائف لائنز پر مکمل کنٹرول تھا ۔ یہ کنٹرول اس نے ریلوے کمپنیوں کے آپریشن سے حاصل کیا تھا۔ فروٹ کمپنی نے ریل لائنوں کے ساتھ وسیع اراضی حاصل کی اور لکڑی جیسے مقامی وسائل کا مفت میں  بے دریغ استعمال کیا۔

شِنہوا سے گفتگو میں ہونڈوراس کے قومی ادارہ شماریات کے ڈائریکٹر یوجینیو سوسا بتایا کہ ان کمپنیوں نے ملک میں ایک قومی ریلوے کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا جسے وہ پورا کرنے میں ناکام رہیں وہ اس کی صرف چند لائن ہی بچھاسکیں۔ ریلوے منصوبہ کبھی آگے نہ بڑھ سکا اور یہ پورے ملک کا احاطہ کبھی نہ کرسکا۔

سوسا نے بتایا کہ امریکہ کمپنیوں کا دوسرا بڑا کردار مقامی سیاست میں اثر و رسوخ تھا انہوں نے عملی طور پر صدور بنانا اور انہیں ہٹانا شروع کیا کیونکہ کئی کمپنیوں کو مستحکم کنٹرول حاصل تھا اگر کوئی کمپنی حکومت کے ساتھ چل نہیں پاتی تو ایک مسلح گروہ تشکیل پاتا تھا جسے دوسری حکومت کی حمایت حاصل ہوتی تھی۔ انتخابی دھوکہ دہی ، حکومت کا تختہ الٹنا یا کسی دوسرے طریقے سے بہت زیادہ سیاسی عدم استحکام پیدا کردیا جاتاتھا۔

امریکہ نے 1930 کی دہائی کے اوائل میں اپنی غیر ملکی منڈیاں وسیع کرنا شروع کی اس سے قبل "ڈالر ڈپلومیسی” اور "بگ اسٹک ” پالیسیوں نے لاطینی امریکہ میں امریکہ مخالف جذبات پیدا کئے جس سے نمٹنے کے لیے امریکہ نے ”اچھے ہمسایہ پالیسی” متعارف کرائی جو ”مساوات” اور ”عدم مداخلت” کے فروغ کا دعویٰ تو کرتی تھی لیکن خطے پر اپنا کنٹرول بھی برقرار رکھے ہوئے تھی۔

ہونڈوراس کے عوام نے امریکی استحصال، لوٹ مار اور مداخلت کے باوجود کبھی مزاحمت ترک نہیں کی ۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں ہونڈوراس کے مزدوروں نے زیادہ اور بہتر اجرت کے لئے کئی بار ہڑتالیں کی۔

اپریل 1954 میں تیلا کے گودی مزدوروں نے اجرت کے تنازع پر ہڑتال کی دھمکی دی۔ مئی تک، کان کنی، ریلوے، ٹیکسٹائل اور تمباکو کی صنعتوں کے مزدوروں کے ساتھ ساتھ ہونڈوراس میں شمال میں واقع کیلے کے باغات کے مزدور، کسان اور چھوٹے زمیندار بھی ہڑتال میں شامل ہوگئے۔

اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی ہڑتال 60 روز جاری رہی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی کیونکہ مزدوروں کے بیشتر مطالبات مان لئے گئے تھے۔

ہونڈوراس کے ایک ریٹائرڈ ٹرین ڈرائیور87 سالہ آندریس الواریز کا کہنا ہے کہ "1954 کی ہڑتال 1821 میں ہماری آزادی کے اعلان کے بعد ہماری دوسری آزادی تھی۔ اس سے قبل ہونڈوراس کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کہنا ایک فریب تھا ہڑتال کے بعد ہمارا کام کا ماحول اور فوائد پہلے سے بہت بہتر ہوگئے۔

اس سب کے باوجود ہونڈوراس کے لوگوں کے لئے ناانصافیوں کا دور ختم نہ ہوا۔

جوآن مینوئل گوئرا کے مطابق امریکیوں کو ان کے ملک میں مراعات حاصل ہیں جبکہ امریکہ میں ہمارے ساتھ کتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ سراسر ناانصافی ہے۔ یہ سب کہتے ہوئے  ان کی آواز میں کپکاہٹ اور آنکھوں میں آنسو تھے تھے۔ ہونڈوراس کے اس 57 سالہ شہری نے ملک بدر ہونے سے قبل پانچ برس امریکہ میں گزارے تھے۔

ہونڈوراس کے 25 سالہ برنارڈ نے بتایا کہ امریکی امیگریشن حراستی مراکز میں تارکین وطن کی اکثریت سے غیرانسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ جیسے اغوا کرلیا گیا ہوں ۔ میں نے اس جگہ 17 گزارے میرے گھر والوں کو میری حالت کا کوئی علم نہ تھا انہوں نے (امریکی حکام نے) مجھے فون کال کرنے کی اجازت نہیں دی اور میں بیرونی دنیا سے مکمل طور پر کٹ گیا تھا۔ میں اپنی رہائی تک ہر روز فرش پر سوتا رہا ۔

زیلایا کی اہلیہ ژیومارا کاسترو 2021 کے اختتام پر ہونڈوراس کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوئیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد کاسترو نے بیرونی قوتوں کی حمایت یافتہ اشرافیہ کی سیاست میں تبدیلی کا عمل شروع کیا۔

مسلسل امریکی دباؤ کے باوجود ہونڈوراس حکومت نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے مارچ 2023 میں چین سے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ۔ دورہ چین کے 3 ماہ بعد کاسترو نے کہا کہ ہنڈوراس ایک چین اصول کی بھرپور حمایت اور پاسداری کرتا ہے اور اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ چین سے دوستانہ تعاون کی بدولت ہونڈوراس کو ترقی کے زیادہ سے زیادہ اور بہتر مواقع ملیں گے۔

ہونڈوراس کی قومی خود مختار یونیورسٹی سے وابستہ ماہر تعلیم ایلن فجرڈو نے کہا ہے کہ چین سے تعاون نہ صرف ہونڈوراس کی اقتصادی ترقی میں مدد دیتا ہے بلکہ نئے عالمی نظام میں اس کی آزادی اور خود مختاری کا عکاس بھی ہے۔

نانا بانانا  ہونڈوراس کی سی ای او سانڈرا ڈیراس نے ہونڈوراس میں امریکی ملکیتی باغات کی  ہونڈوراس کے زیر انتظام کاروباری اداروں کو منتقلی پر روشنی ڈالی جو 50 ہزار ہیکٹر سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ڈیراس نے کہا کہ ہم اس زمین اور کیلے کی کاشت کے وسائل کے مالک ہیں اور ہم ہمیشہ ہونڈوراس کے لوگوں کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایلن فجرڈو نے کہا کہ آج ہونڈوراس عالمی جنوب کے ساتھ ملکر ترقی کے نئے مواقع اور عالمی حیثیت حاصل کررہا ہے، جو نام نہاد ” بانانا ری پبلک ” سے زیادہ آزاد اور متنوع قوم کی سمت ایک قدم ہے۔

شِنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں