منگل, جنوری 14, 2025
تازہ ترینسپریم کورٹ، مخصوص نشستیں کیس، 2018ء ،2024ء میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے...

سپریم کورٹ، مخصوص نشستیں کیس، 2018ء ،2024ء میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا فارمولاودستاویزات طلب

اسلام آباد:  سپریم کورٹ نے 2018ء اور 2024ء میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا فارمولا و دستاویزات طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ ثابت کریں الیکشن کمیشن نے غیر قانونی کام کیا ہم اڑا دیں گے، پی ٹی آئی ایک سال لینے کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی،چاہتے ہیں جس کا جو حق ہے اس کو ملنا چاہئے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13رکنی فل کورٹ نے سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں بارے کیس کی سماعت کی۔

وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر مہمند نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میری چار قانونی معروضات ہیں، پی ٹی آئی نے قانون کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے، پی ٹی آئی کے پارٹی ٹکٹ پر بیرسٹر گوہر کے بطور چیئرمین دستخط ہیں، پارٹی سرٹیفکیٹس جمع کراتے وقت پی ٹی آئی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ 22 دسمبر کو جاری شدہ ہیں، انٹرا پارٹی انتخابات کیس کا فیصلہ 13جنوری کا ہے تب تک بیرسٹر گوہر چیئرمین تھے۔ وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات 23 دسمبر کو کالعدم قرار دے دیئے تھے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 26دسمبر کو معطل ہو چکا تھا ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ غلطی کہاں سے ہوئی اور کس نے کی ہے یہ بھی بتائیں؟۔ وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ کئی امیدواروں نے پارٹی وابستگی نہیں لکھی اسی وجہ سے امیدوار آزاد تصور ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اصل چیز پارٹی ٹکٹ ہے جو نہ ہونے پر امیدوار آزاد تصور ہوگا جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ اس معاملے پر میں اور آپ ایک پیج پر ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پیج پھاڑ دیں مجھے ایک پیج پر نہیں رہنا۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے جاری پارٹی ٹکٹس کی قانونی حیثیت نہیں، صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین تھے اور ہیں، صاحبزادہ حامد رضا خود کو پارٹی ٹکٹ جاری کر سکتے تھے، انہوں نے خود کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا، حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں لکھا کہ ان کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے جس کا پی ٹی آئی سے اتحاد ہے، حامد رضا نے پی ٹی آئی کا پارٹی ٹکٹ جمع کرایا تھا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ریٹرننگ افسر نے حامد رضا کے کاغذات منظور کر لئے تھے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حامد رضا نے بیان حلفی میں ڈیکلریشن پی ٹی آئی نظریاتی کا جمع کرایا تھا۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ حامد رضا کو آزاد امیدوار قرار دینے سے پہلے کیا ان سے وضاحت مانگی گئی تھی؟ وکیل نے بتایا کہ حامد رضا نے درخواست دے کر شٹل کاک کا انتخابی نشان مانگا تھا، ریکارڈ میں پارٹی ٹکٹ نظریاتی کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی میں تضاد پر کوئی نوٹس کیا گیا تھا؟ وکیل نے بتایا کہ ریٹرننگ افسر سکروٹنی میں صرف امیدوار کی اہلیت دیکھتا ہے انتخابی نشان کا معاملہ نہیں، حامد رضا خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار قرار نہیں دینا چاہتے تھے، حامد رضا ایک سے دوسری جماعت میں چھلانگیں لگاتے رہے، 14 جنوری سے 7فروری تک تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کروا سکتی تھی۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوتے بھی تو کیا فرق پڑنا تھا؟ ،وکیل سکندر مہمند نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان مل جاتا اور وہ انتخابات کیلئے اہل ہو جاتی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس صورتحال میں تو انتخابی شیڈول ہی ڈسٹرب ہو جاتا ،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اتنی خاص رعایت کس قانون کے تحت ملنی تھی؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی انتخابات کا معاملہ کئی سال سے الیکشن کمیشن میں زیر التواء تھا، الیکشن کمیشن 13جنوری کا حوالہ دے کر معاملہ سپریم کورٹ پر کیوں ڈال رہا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی انتخابات تو ہوچکے تھے معاملہ ان کی قانونی حیثیت کا تھا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ آرٹیکل 218(3)کے تحت پی ٹی آئی کو رعایت دے سکتے تھے، کنول شوزب کا موجودہ کیس میں کوئی حق دعوی نہیں، کنول شوزب کو توقع تھی وہ امیدوار بن سکتی ہیں، کنول شوزب کی درخواست ناقابل سماعت ہے کیونکہ وہ متاثرہ فریق نہیں، الیکشن کمیشن نے استدعا کی کہ کنول شوزب کی درخواست خارج کی جائے۔

وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ بیرسٹر گوہر سمیت پی ٹی آئی کے چار ارکان اسمبلی سنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہوئے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق 6امیدواروں کو الیکشن کمیشن نے خود آزاد قرار دیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو اس وقت تین دن کا وقت دیا جائے جماعت میں شمولیت کیلئے؟ وکیل نے جواب دیا کہ تین دن کا وقت گزر چکا ہے اب کیسے دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کتنے امیدواروں کی پارٹی وابستگی اور ٹکٹ ایک ہی جماعت کے تھے؟ وکیل نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ قابل قبول نہیں تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچی کہ امیدواروں کو آزاد قرار دینا غلط تھا تو تین دن کا وقت دوبارہ شروع ہوگا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے کسی جماعت کی رجسٹریشن ختم نہیں کی تھی، غلط تشریح کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا پورا موقف خراب ہو جاتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ اس سوال کا جواب دے چکا ہوں، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن لڑا اور نہ ان کا کوئی امیدوار کامیاب ہوا۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ گزشتہ انتخابات میں باپ پارٹی کو خیبرپختونخوا میں مخصوص نشستیں کیسے دی گئی تھیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ باپ پارٹی کو نشستیں دینے کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا، باپ پارٹی کو نشستیں دینے کے معاملے پر کوئی سماعت نہیں ہوئی تھی۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن ایک معاملے پر دو مختلف موقف کیسے لے سکتا ہے؟ ،وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا باپ پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا تھا؟ کیا ایسی کوئی پابندی ہے کہ کسی بھی اسمبلی میں نشست ہو تو مخصوص سیٹیں مل سکتی ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کیا یہ درست ہے کہ آئین و قانون کے مطابق 8فروری کو پانچ عام انتخابات ہوئے تھے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر اسمبلی کیلئے الگ عام انتخابات ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ہی وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل مکمل ہوگئے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک وکیل نے ایک کیس میں کچھ موقف اپنایا شام کو کچھ اور، مختلف موقف کا سوال ہونے پر وکیل نے کہا میں اب زیادہ سمجھدار ہوگیا ہوں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے اپنے نوٹ میں کچھ معلومات مانگی تھیں جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ کا نوٹ میں نہیں پڑھ سکا۔وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل کے بعد عدالت نے بیرسٹر گوہر کو روسٹرم پر بلایا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ سے پوچھا تھا کہ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا تھا یا نہیں؟ جس پر بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ بطور پارٹی امیدوار اور آزاد امیدوار بھی کاغذات جمع کرائے تھے، الیکشن کمیشن نے عدالت کو صرف ایک فارم دکھایا ہے دوسرا نہیں، عدالتی فیصلہ رات 11بجے آیا جبکہ ہمیں آزاد امیدوار شام 4بجے ہی قرار دے دیا گیا تھا، ایک امیدوار ایک حلقے کیلئے چار کاغذات نامزدگی جمع کروا سکتا ہے، پارٹی ٹکٹ کے کئی خواہشمند ہوتے ہیں جسے ٹکٹ ملے وہی امیدوار تصور ہوتا ہے، الیکشن کمیشن نے عدالت سے کاغذات نامزدگی چھپائے ہیں۔

دوران سماعت فاروق نائیک کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فاروق نائیک عدالت نہیں پہنچ سکے، پیپلزپارٹی کے وکیل اور شہزاد شوکت نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا ئے۔کامران مرتضی نے کہا کہ جے یو آئی (ف) الیکشن کمیشن کے دلائل اپنا رہی ہے، اقلیتوں کی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے مس پرنٹ ہوا تھا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی، اقلیتوں کے حوالے سے الگ سیکشن موجود ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے درست کام کیا ہے؟ وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ آئینی ادارے کے ساتھ ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے بیرسٹر حارث عظمت نے تحریری دلائل جمع کرائے تاہم عدالت نے مولوی اقبال حیدر کو دلائل سے روک دیا۔

چیف جسٹس نے کہا آپ نے الیکشن نہیں لڑا تو آپ ہمارے لئے کوئی نہیں ہیں، اپنا کیس چلانا ہو تو کالا کوٹ نہیں پہن سکتے۔ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی نوٹس پر بطور ایڈووکیٹ جنرل دلائل دوں گا، متفرق درخواست میں تحریری دلائل جمع کروا چکا ہوں، ہم الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں خیبرپختونخوا میں انتخابات درست نہیں ہوئے؟ ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ فیصل صدیقی کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں، گزشتہ انتخابات میں خیبرپختونخوا میں باپ پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، باپ پارٹی کے پاس صوبے میں کوئی جنرل نشست نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی میں تین افراد نے شمولیت اختیار کی تھی۔ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے بتایا کہ آزاد کی شمولیت پر الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کو مخصوص نشست دی تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی کی بلوچستان میں حکومت تھی، قومی اسمبلی میں ارکان اسمبلی بھی تھے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کیلئے باقاعدہ نیا شیڈول جاری کیا تھا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے اور اب مختلف موقف اپنایا ہے، الیکشن کمیشن آج کہتا ہے گزشتہ انتخابات میں کیا گیا ان کا فیصلہ غلط تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے اس وقت یہ فیصلہ چیلنج کیا تھا؟ اگر چیلنج نہیں کیا تھا تو بات ختم، پی ٹی آئی کا 2018ء میں بھی پارٹی انتخابات نہیں ہوئے تھے، تب انتخابی نشان کیسے ملا تھا؟ ،چیف جسٹس نے کہا اس پر جائیں گے تو چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی کھل جائے گا۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے بتایا کہ باپ پارٹی نے خیبرپختونخوا اسمبلی کیلئے کوئی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جو فارمولا الیکشن کمیشن نے پہلے اپنایا تھا اب کیوں نہیں اپنایا جا رہا۔ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پنجاب ،بلوچستان حکومتوں اورایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل اپنائے جبکہ معطل شدہ ارکان اسمبلی کے وکیل شاہ خاور نے تحریری دلائل جمع کرائے۔اٹارنی جنرل عثمان اعوان نے دلائل کیلئے 45منٹ کا وقفہ مانگا۔

وقفے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت یقینی بنانے کیلئے مخصوص نشستیں رکھی گئیں، مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی سے ہی مل سکتی ہیں، خواتین کو پہلی مرتبہ قومی و صوبائی اسمبلوں کے ساتھ سینیٹ میں بھی بڑی تعداد میں نمائندگی 2002میں ملی، سال 1990ء سے 1997 تک خواتین کی مخصوص نشستیں ختم کر دی گئی تھیں، سترہویں ترمیم  کے ذریعے خواتین کی مخصوص نشستیں شامل کی گئیں، متناسب نمائندگی کے اصول کا مقصد ہی نشستیں خالی نہ چھوڑنا ہے، مخصوص نشستوں کے لیے آزاد امیدواروں کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ یہ بات آپ کس بنیاد پر کر رہے ہیں؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ جو فارمولہ آپ بتا رہے ہیں وہ الیکشن رولز کے سیکشن 94سے متصادم ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مخصوص نشستوں کا فارمولہ نئے قانون میں بھی تبدیل نہیں ہوا۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا مخصوص نشستوں کیلئے 2002سے یہی فارمولہ چل رہا ہے؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ سال 2002ء میں الیکشن ایکٹ 2017ء نہیں تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سارا مسئلہ شروع ہی سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنے پر ہوا جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس نکتے پر بعد میں جواب دوں گا، اصل نکتہ یہ ہے کہ کوئی مخصوص نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے بعد پہلا انتخاب 2018ء میں ہوا تھا، آپ 2002ء کی مثال دے رہے ہیں جو بہت پرانی بات ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا تعین ہوا لیکن انہیں دی نہیں گئیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے بغیر آزاد امیدوار مخصوص نشستیں نہیں مانگ سکتے۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر سنی اتحاد والے ارکان آزاد ہیں تو ان کی مخصوص نشستوں کا تعین کیوں کیا گیا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آزاد امیدواروں کو پارٹی ارکان سے کم تر نہیں سمجھا جا سکتا، آزاد امیدوار مقررہ وقت میں کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بن سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میرے حساب سے انگریزی میں لکھی بات بہت آسان ہے، اتنے دن ہوگئے آرٹیکل 51کی تشریح کرتے ہوئے ہم مفروضوں پر کیوں چل رہے ہیں؟، اپنی سوچ اور نظریہ آئین پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مشکلات آپ کے بنائے ہوئے رولز پیدا کر رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کاش میرا دماغ چیف جسٹس جیسا ہوتا تو پڑھتے ہی سمجھ جاتا، اتنی کتابیں اسی لئے پڑھ رہے ہیں کہ سمجھ آ جائے، کمزور ججز کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ ایسا لکھنا چاہئے کہ میٹرک کا طالبعلم بھی سمجھ جائے، آئین اور قانون ججز اور وکلا کیلئے نہیں بلکہ عوام کیلئے ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں جس کا جو حق ہے اس کو ملنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا اگر حق کی بات ہے تو اس کا مطلب ہے آپ آدھا فیصلہ کر چکے، ایک چیز کی بڑی تشویش ہے کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن حقیر ادارہ نہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ کے ماتحت ہے، یہ دکھانا ہوگا الیکشن کمیشن نے غیر آئینی کام کیا ہے پھر ہم اس میں مداخلت کریں، الیکشن کمیشن ایک خودمختار آئینی ادارہ ہے، دھاندلی کی جب تک کوئی صحیح طریقے سے بات ہم تک نہیں آئے گی ہم کچھ نہیں کرنے والے، ہارنے والے کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا ہے، جیتنے والا کہتا ہے الیکشن ٹھیک ہوا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی تقرری حکومت اور اپوزیشن مل کر کرتے ہیں ابھی تک کسی فریق نے اس نکتے پر بات ہی نہیں کی، الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدام کیا تو ثابت کریں، اتنی باریکیوں میں ہم ایسے جا رہے جیسے الیکشن کمیشن کیخلاف اپیل سن رہے ہوں، ہم مبینہ دھاندلی کے معاملے کو براہ راست نہیں دیکھ سکتے، ثابت کریں الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدام کیا ہم اڑا دیں گے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ حق کس بنیاد پر ملے گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم نے یہ نہیں دیکھنا حق کس کا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آئین کیا کہتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے سوال کیاکہ کیا آپ 2018ء میں مخصوص نشستوں کی تقسیم رولز کی روشنی میں پیش کر سکتے ہیں؟ عدالت کے سامنے غیر متنازع حقائق ہوں گے جس سے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ نشستوں کی جو تقسیم آپ ہمیں دیں گے وہ حکومت کی ہوگی، نشستوں کے تعین کا کام الیکشن کمیشن کا ہے حکومت کا نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا کل تک 2018ء کی نشستوں اور سنی اتحاد کے ہوتے ہوئے نشستوں کا تعین کر سکتے ہیں؟ ،چیف جسٹس کے بقول آپ بہترین ادارہ ہیں آپ کیلئے کیا مسئلہ ہے؟۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بنیادی سوال بڑی سیاسی جماعت کو غلط تشریح کرکے انتخابات سے باہر کرنا ہے، نشستوں کی تقسیم بعد کی چیز ہے۔ چیف جسٹس نے کہا مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی الیکشن کمیشن سے مانگا کیا جا رہا ہے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے 2018ء اور 2024ء میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا فارمولا اور دستاویزات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ( آج) 11:30 بجے تک ملتوی کردی۔

انٹرنیوز
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں